نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

اشاعتیں

اپریل, 2020 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

سورج ‏پر ‏حکومت ‏

     ایک روز مقام صہبا میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز ظہر ادا کی اور پھر حضرت علی رضی اللہ عنہ کو کسی کام کے لئے روانہ فرمایا حضرت علی رضی اللہ عنہ کے واپس آنے تک حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز عصر بھی ادا فرمالی اور جب حضرت علی واپس آئے تو ان کی آغوش میں اپنا سرِانور رکھ کر حضور سوگئے حضرت علی نے ابھی تک نماز عصر ادا نہ کی تھی ادھر سورج کو دیکھا تو غروب ہونے والا تھا حضرت علی سوچنے لگے کہ ادھر رسول خدا آرام فرما ہیں اور ادھر نماز خدا کا وقت ہورہاہے ، رسول خدا کی استراحت کا خیال رکھوں تو نماز جاتی ہے اور نماز کا خیال کروں تو رسول خدا کی استراحت میں خلل واقع ہوتا ہے، کروں تو کیا کروں؟ آخر مولا علی شیر خدا رضی اللہ عنہ نے فیصلہ کیا کہ نماز کو قضا ہونے دو مگر حضور کی نیند مبارک میں خلل نہ آئے چنانچہ سورج ڈوب گیا اور عصر کا وقت جاتا رہا، حضور اٹھے تو حضرت علی کو مغموم دیکھ کر وجہ دریافت کی تو حضرت علی نے عرض کیا یا رسول اللہ! میں نے آپ کی استراحت کے پیش نظر ابھی تک نماز عصر نہیں پڑھی اور سورج غروب ہوگیا ہے حضور نے فرمایا تو غم کس بات کا ، لو ابھی سورج وا...

چاند ‏پر ‏حکومت ‏

     حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے دشمنوں نے بالخصوص ابوجہل نے ایک مرتبہ حضور سے کہاکہ اگر تم خدا کے رسول ہوتو آسمان پر جو چاند ہے اس کے دو ٹکڑے کرکے دکھاؤ ۔حضور نے فرمایا لو یہ بھی کرکے دکھاتا ہوں چنانچہ آپ نے چاند کی طرف اپنی انگلی مبارک سے اشارہ فرمایا تو چاند کے دو ٹکڑے ہوگئے، یہ دیکھ کر ابوجہل حیران ہوگیا مگر بے ایمان مانا پھر بھی نہیں اور حضور کو جادوگر ہی کہتا رہا۔ (حجۃاللہ صـــ396 اور بخآری شریف صـــ271 جز 2) سبق: ہمارے حضور کی حکومت چاند پر بھی جاری ہے اور باوجود اتنے بڑے اختیار کے بے ایمان افراد حضور کے اختیار و تصرف کو پھر بھی نہیں مانتے 

بادلوں ‏پر ‏حکومت

     مدینہ منورہ میں ایک مرتبہ بارش نہیں ہوئی تھی قحط کا سا عالم تھا اور لوگ بڑے پریشان تھے ایک جمعہ کے روز حضور صلی اللہ علیہ وسلم جب کہ وعظ فرما رہے تھے ایک اعرابی اٹھا اور عرض کرنے لگا یارسول اللہ ! مال ہلاک ہوگیا اور اولاد فاقہ کرنے لگی دعا فرمائیے بارش ہو۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی وقت اپنے پیارے پیارے نورانی ہاتھ اٹھائے راوی کا بیان ہے کہ آسمان بالکل صاف تھا ابر کا نام ونشان تک نہ تھا مگر مدنی سرکار کے ہاتھ مبارک اٹھے ہی تھے کہ پہاڑوں کی مانند ابر چھاگئے اور چھاتے ہی مینہ شروع ہوگیا اتنا برسا کہ چھت ٹپکنے لگی اور حضور کی ریش انور سے پانی کے قطرے گرتے ہم نے دیکھے پھر یہ مینہ بند نہیں ہوا بلکہ ہفتہ کو بھی برستا رہا پھر اگلے دن بھی اور پھر اس سے اگلے دن بھی حتیٰ کہ لگاتار اگلے جمعہ تک برستا ہی رہا اور حضور جب دوسرے جمعہ کا وعظ فرمانے اٹھے تو وہی اعرابی جس نے پہلے جمعہ میں بارش نہ ہونے کی تکلیف عرض کی تھی اٹھا اور عرض کرنے لگا یا رسول اللہ! اب تو مال غرق ہونے لگا اور مکان گرنے لگے اب پھر ہاتھ اٹھائیے کہ یہ بارش بند بھی ہو۔ چنانچہ حضور نے پھر اسی وقت اپنے پیارے پیا...

حکایت نمبر17 ایک ‏صحرائی ‏قافلہ

     عرب کے ایک صحرا میں ایک بہت بڑا قافلہ راہ پیما تھا کہ اچانک اس قافلہ کاپانی ختم ہوگیا اس قافلے میں چھوٹے بڑے بوڑھے جوان اور مرد عورتیں سبھی تھے پیاس کے مارے سب کا برا حال تھا اور دور تک پانی کا نشان تک نہ تھا اور پانی ان کے پاس ایک قطرہ تک باقی نہ رہا تھا یہ عالم دیکھ کر موت ان کے سامنے رقص کرنے لگی مگر ان پر یہ خاص کرم ہوا کہ؛     ناگہانی آں مغیث ہر دو کون  مصطفے پیدا شدہ از بہر عون         یعنی اچانک دوجہاں کہ فریاد رس محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم ان کی مدد فرمانے وہاں پہنچ گئے حضور کو دیکھ کر سب کی جان میں جان آگئی اور سب حضور کے گرد جمع ہوگئے، حضور نے انہیں تسلی دی اور فرمایا کہ وہ سامنے جو ٹیلہ ہے اس کے پیچھے ایک سیاہ رنگ کا حبشی غلام اونٹنی پر سوار ہوئے جارہا ہے اس کے پاس پانی کا مشکیزہ ہے اس کو اونٹنی سمیت میرے پاس لے آؤ چنانچہ کچھ آدمی ٹیلے کے اس پار گئے تو دیکھا کہ واقعی ایک اونٹنی پر سوار حبشی جارہا ہے وہ اس حبشی کو حضور کے پاس لے آئے، حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حبشی سے مشکیزہ لے لیا اور اپنا ...

کوزے ‏میں ‏دریا

     حدیبیہ کے روز سارے لشکر صحابہ میں پانی ختم ہوگیا حتٰی کہ وضو اور پینے کے لئے بھی پانی کا قطرہ تک باقی نہ رہا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک کوزہ پانی کا تھا حضور جب اس کوزہ سے وضو فرمانے لگے تو سب لوگ حضور کی طرف لپکے اور فریاد کی کہ یا رسول اللہ! ہمارے پاس تو ایک قطرہ بھی پانی کا باقی نہیں رہا ہم نہ تو وضو کرسکتے اور نہ ہی اپنی پیاس بجھا سکتے ہیں حضور! یہ آپ ہی کے کوزہ میں پانی باقی ہے ہم سب کے پاس پانی ختم ہوگیا اور ہم پیاس کی شدت سے بے چین ہیں ، حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات سن کر اپنا ہاتھ مبارک اس کوزہ میں ڈال دیا لوگوں نے دیکھا کی حضور کے ہاتھ مبارک کی پانچوں انگلیوں سے پانی کے پانچ چشمے جاری ہوگئے اور سب لوگ ان چشموں سے سیراب ہونے لگے اور ہر شخص نے جی بھر کے پانی پیا اور پیاس بجھائی اور سب نے وضو بھی کر لیا حضرت جابر سے پوچھا گیا کہ لشکر کی تعداد کتنی تھی؟ تو فرمایا اس وقت اگر ایک لاکھ آدمی بھی ہوتے تو وہ پانی سب کے لئے کافی تھا مگر ہم اس وقت پندرہ سو کی تعداد میں تھے ۔ (مشکوٰۃ شریف صـــ524) انگلیاں ہیں فیض پر ٹوٹیں  ہے پیاسیں جھوم کر...

حضرت ‏جابر ‏کا ‏مکان ‏اور ‏ایک ‏ہزار ‏مہمان

     حضرت جابر رضی اللہ عنہ نے جنگ خندق کے دنوں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے شکم انور پر پتھر باندھا دیکھا تو گھر آکر اپنی بیوی سے کہا کہ کیا گھر میں کچھ ہے تاکہ ہم حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے کچھ پکائیں اور حضورکو کھلائیں؟ بیوی نے کہا، تھوڑے سے جَو ہیں اور ایک بکری کا چھوٹا بچہ ہے اسے ذبح کرلیتے ہیں آپ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو بلا لائیے مگر چونکہ وہاں لشکر بہت زیادہ ہے اس لئے حضور سے پوشیدگی میں کہئے گا کہ وہ اپنے ہمراہ دس آدمیوں سے کچھ کم ہی لائیں۔ جابر نے کہا، اچھا تو میں اس بکری کا بچہ ذبح کرتا ہوں تم اسے پکاؤ اور میں حضور کو بلاتا ہوں، چنانچہ جابر حضور کی خدمت میں پہنچے اور کان میں عرض کیا حضور میرے ہاں تشریف لے چلئے اور اپنے ساتھ دس آدمیوں سے کچھ کم آدمی کے چلئے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے سارے لشکر کو مخاطب فرما کر فرمایا چلو میرے ساتھ چلو جابر نے کھانا پکایا ہے اور پھر جابر کے گھر آکر حضور نے اس تھوڑے سے آٹے میں اپنا تھوک مبارک ڈال دیا اور اسی طرح ہنڈیا میں بھی اپنا تھوک مبارک ڈال دیا اور پھر حکم دیا کہ اب روٹیاں اور ہنڈیا پکاؤ، چنانچہ اس تھوڑے سے آٹے اور...

سانپ ‏کا ‏انڈہ

     ایک صحابی حضرت حبیب بن فدیک رضی اللہ عنہ کہیں جارہے تھے کہ ان کا پاؤں اتفاقاً ایک زہریلے سانپ کے انڈے پر پڑگیا اور وہ پس گیا اور اس کے زہر کے اثر سے حضرت حبیب بن فدیک رضی اللہ عنہ کی آنکھیں بالکل سفید ہوگئیں اور نظر جاتی رہی، یہ حال دیکھ کر ان کے والد بہت پریشان ہوئے اور انہیں لےکر حضور سرور عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پہونچے، حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے سارا قصہ سن کر اپنا تھوک مبارک ان کی آنکھوں میں ڈالا تو حضرت حبیب بن فدیک کی اندھی آنکھیں فوراً روشن ہوگئیں اور انہیں نظر آنے لگا، راوی کا بیان ہے کہ میں نے خود حضرت فدیک کو دیکھا اس وقت ان کی عمر اسی سال کی تھی اور آنکھیں تو ان کی بالکل سفید تھیں مگر حضور کی تھوک مبارک کے اثر سے نظر اتنی تیز تھی کہ سوئی میں دھاگا ڈال لیتے تھے (دلائل النبوۃ صــــ167)  سبق : ہمارے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی مثل بننے والوں کیلئے مقام غور ہے کہ حضور وہ ہیں جن کی تھوک مبارک سے اندھی آنکھ میں بینائی اور نور پیدا ہوجائے اور وہ وہ ہیں کہ ان کی تھوک کے متعلق  ریل گاڑیوں میں یہ لکھا ہوتا ہے کہ " تھو کو مت! اس سے بیماری...

حکایت نمبر13 بکری ‏زندہ ‏ہوگئی

     جنگ احزاب میں حضرت جابر رضی اللہ عنہ نے حضور سرور عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت کی اور ایک بکری ذبح کی، حضور جب صحابۂ کرام کی معیّت میں جابر کے گھر پہنچے تو جابر نے کھانا لاکر آگے رکھا، کھانا تھوڑا تھا اور کھانے والے زیادہ تھے، حضور نے فرمایا تھوڑے تھوڑے آدمی آتے جاؤ اور باری باری کھانا کھاتے جاؤ، چنانچہ ایسا ہی ہوا جتنے آدمی کھانا کھالیتے وہ نکل جاتے، اس طرح سب نے کھانا کھالیا، جابر فرماتے ہیں کہ حضور نے پہلے ہی فرما دیا تھا کہ کوئی شخص گوشت کی ہڈی نہ توڑے، نہ پھینکے سب ایک جگہ رکھتے جائیں جب سب کھاچکے تو آپ نے حکم دیا کہ چھوٹی موٹی سب ہڈیاں جمع کردو، جمع ہوگئیں تو آپ نے اپنا دست مبارک ان پر رکھ کر کچھ پڑھا آپ کا دست مبارک ابھی ہڈیوں کے اوپر ہی تھا اور زبان مبارک سے آپ کچھ پڑھ ہی رہے تھے کہ وہ ہڈیاں کچھ کا کچھ بننے لگیں، یہاں تک کہ گوشت پوست تیار ہوکر کان جھاڑتی ہوئی وہ بکری اٹھ کھڑی ہوئی، حضور نے فرمایا ، "جابر! لے یہ اپنی بکری لے جا" (دلائل النبوۃ صــــ224 جــ2) سبق: ہمارے حضور صلی اللہ علیہ وسلم منبع الحیات اور حیات بخش ہیں، آپ نے مردہ دلوں اور...

حکایت نمبر8 بال ‏کا ‏کمال

    حضور سرور عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی ریشِ مبارک کے دوبال مبارک حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کو مل گئے، آپ دو بالوں کو بطور تبرک گھر لے آئے اور بڑی تعظیم کے ساتھ اندر ایک جگہ رکھ دئیے، تھوڑی دیر کے بعد اندر سے قرآن پڑھنے کی آوازیں آنے لگیں، صدیق اکبر رضی اللہ عنہ اندر گئے تو تلاوت کی آوازیں تو آرہی تھی مگر پڑھنے والے نظر نہ آتے تھے، حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ حضور کی خدمت میں حاضر ہوکر سارا قصہ عرض کیا تو حضور نے مسکرا کر فرمایا :   اِنَّ ال٘مَلٰئکَۃَ یَج٘تَمِعُو٘نَ عَلٰی شَع٘رِی٘ وَ یَق٘رَؤُنَ ال٘قُراٰنَ۔ "یہ فرشتے ہیں جو میرے بال کے پاس جمع ہوکر قرآن پڑھتے ہیں"  (جامع المعجزات صــــ62) سبق: حضور سرور عالم صلی اللہ علیہ وسلم کا ہربال منبع الکمال ہے اور آپ کا بال۔ بال شریف زیارت گاہِ خلائق ہے، پھر جن لوگوں کے بال مونڈھ کر نائی نالیوں میں پھینک دیتا ہے وہ اگر حضور کی مثل ہونے کا دعویٰ کرنے لگیں تو کس قدر ظلم ہے۔

حکایت نمبر11 خالد ‏کی ‏ٹوپی

     حضرت خالد بن ولید رضی اللہ تعالیٰ عنہ جو اللہ کی تلواروں میں سے ایک تلوار تھے،آپ جس میدان جنگ میں تشریف لے جاتے اپنی ٹوپی کو ضرور سر پر رکھ جاتے اور ہمیشہ فتح ہی پاکر لوٹتے، کبھی شکست کا منھ نہ دیکھتے، ایک مرتبہ جنگ یرموک میں جب کہ میدان جنگ گرم ہورہا تھا حضرت خالد کی ٹوپی گم ہوگئی، آپ نے لڑنا چھوڑ کر ٹوپی کی تلاش شروع کردی، لوگوں نے جب دیکھا کہ تیر اور پتھر برس رہے ہیں، تلوار اور نیزہ اپنا کام کررہے ہیں، موت سامنے ہے اور اس عالم میں خالد کو اپنی ٹوپی کی پڑی ہوئی ہے اور وہ اسی کو ڈھونڈنے میں مصروف ہوگئے ہیں تو انہوں نے حضرت خالد سے کہا، جناب ٹوپی کا خیال چھوڑئیے اور لڑنا شروع کیجئے، حضرت خالد نے ان کی اس بات کی پروانہ کی اور ٹوپی کی بدستور تلاش شروع رکھی، آخر ٹوپی ان کو مل گئی تو انہوں نے خوش ہوکر کہا بھائیو! جانتے ہو مجھے یہ ٹوپی کیوں اتنی عزیز ہے؟ جان لو کہ میں نے آج تک جو جنگ بھی جیتی اسی ٹوپی کے طفیل، میرا کیا ہے سب اسی کی برکتیں ہیں، میں اس کے بغیر کچھ بھی نہیں اور اگر یہ میرے سرپر ہوتو دشمن میرے سامنے کچھ بھی نہیں، لوگوں نے کہا آخر اس ٹوپی کی کیا خوبی ہے؟؛ت...

رکانہ ‏پہلوان ‏

     بنی ہاشم میں ایک مشرک شخص رکانہ نامی بڑا زبردست اور دلیر پہلوان تھا، اس کا ریکارڈ تھا کہ اسے کسی نے نہ گرایا تھا۔ وہ ایک جنگل میں جسے اِضم کہتے تھے رہا کرتا تھا اور بڑا مالدار تھا، ایک دن حضور صلی اللہ علیہ وسلم اکیلے اس طرف جا نکلے، رکانہ نے آپ کو دیکھا تو آپ کے پاس آکر کہنے لگا، اے محمد! تو ہی وہ ہے جو ہمارے لات و عزیٰ کی توہین و تحقیر کرتا ہے اور اپنے ایک خدا کی بڑائی بیان کرتا ہے، اگر میرا تجھ سے تعلق رحمی نہ ہوتا تو آج میں تجھے مارڈالتا، آ میرے ساتھ کُشتی کر، تو اپنے خدا کو پکار! میں اپنے لات و عزیٰ کو پکارتا ہوں دیکھیں تو تمھارے خدا میں کتنی طاقت ہے؟ حضور نے فرمایا رکانہ! اگر کُشتی ہی کرنا ہے تو چل میں تیار ہوں، رکانہ یہ جواب سن کر اول تو حیران ہوا اور پھر بڑے غرور کے ساتھ مقابلے میں کھڑے ہوگیا ۔      حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلی ہی جھپٹ میں اسے گرالیا اور اس کے سینے پر بیٹھ گئے، رکانہ عمر میں پہلی مرتبہ گر کر بڑا شرمندہ بھی ہوا اور حیران بھی اور بولا اے محمد! میرے سینے سے اٹھ کھڑا ہو میرے لات و عزیٰ نے میری طرف دھیان نہیں کیا ایک بار اور م...

ایک ‏جنتر ‏منتر ‏سے ‏علاج ‏کرنے ‏والا ‏

     قبیلۂ ازوشنؤۃ میں ایک شخص تھا جس کا نام ضماد تھا، وہ اپنے جنتر منتر سے لوگوں کے جن و بھوت وغیرہ کے سائے اتارا کرتا تھا، ایک مرتبہ وہ مکہ معظمہ میں آیا تو بعض لوگوں کو یہ کہتے سنا کہ محمد کو جنّ کا سایہ ہے یا جنون ہے(معاذاللہ) ضماد نے کہا میں ایسے بیماروں کا علاج اپنے جنتر منتر سے کرلیتا ہوں مجھے دکھاؤ، وہ کہاں ہے؟ وہ اسے حضور کے پاس لے آئے۔ ضماد جب حضور کے پاس بیٹھا تو حضور نے فرمایا، ضماد! اپنا جنتر منتر پھر سنانا پہلے میرا کلام سنو چنانچہ آپ نے اپنی زبانِ حق سے یہ خطبہ پڑھنا شروع کیا: اَل٘حَم٘دُ لِلَّهِ نَح٘مَدُهٗ وَ نَس٘تَعِی٘نُہٗ وَ نَس٘تَغ٘فِرُہٗ وَ نُؤ٘مِنُ بِہٖ وَ نَتَوَکَّلُ عَلَی٘هِ وَ نَعُو٘ذُ بِاللّٰهِ مِن٘ شُرُو٘رِ اَن٘فُسَنَا وَ مِن٘ سَیِّاٰتِ اَع٘مَالِنَا مَن٘ یَّھ٘دِهِ اللّٰهُ فَلَا مُضِلَّ لَهُ وَ مَن٘ یُّض٘لِل٘هُ فَلَا ھَادِیَ لَهُ وَ اَش٘ھَدُ اَن٘ لَّااِلــٰهَ اِلَّا اللَّهُ وَح٘دَہٗ لَا شَرِی٘کَ لَهٗ وَش٘ھَدُ اَنَّ مُحَـمَّدًا عَب٘ـدُهٗ وَرَسُو٘لہٗ ـ   ضماد نے یہ خطبۂ مبارکہ سنا تو مبہوت رہ گیا اور عرض کرنے لگا حضور! ایک بار پھر پ...

مقدس ‏قاتل

مکہ معظمہ میں ایک کافر ولید نامی رہتا تھا اس کا ایک سونے کابت تھا جسے وہ پوجا کرتا تھا، ایک دن اس بت میں حرکت پیدا ہوئی اور وہ بولنے لگا، اس بت نے کہا۔ " لوگو! محمد اللہ کا رسول نہیں ہے، اس کی ہرگز تصدیق نہ کرنا "( معاذاللہ ) ولید بڑا خوش ہوا اور باہر نکل کر اپنے دوستوں سے کہا، مبارکباد! آج میرا معبود بولا ہے اور صاف صاف اس نے کہا ہے کہ محمد اللہ کا رسول نہیں ہے یہ سن کر لوگ اس کے گھر آئے تو دیکھا کہ واقعی اس کا بت یہ جملے دہرایا ہے، وہ لوگ بھی بہت خوش ہوئے اور دوسرے دن ایک عام اعلان کے ذریعے ولید کے گھر میں ایک بہت بڑا اجتماع ہوگیا تاکہ اس دن بھی وہ لوگ بت کے منہ سے وہی کلمہ سنیں، جب بڑا اجتماع ہوگیا تو ان لوگوں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی دعوت دی تاکہ حضور خود بھی تشریف لاکر بت کہ منہ سے وہی بکواس سن جائیں چنانچہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم بھی تشریف لے آئے، جب حضور تشریف لائے تو بت بول اٹھا      "اے مکہ والو! خوب جان لو کہ محمد اللہ کے سچے رسول ہیں ان کاہر ارشاد سچا ہے اور ان کادین برحق ہے تم اور تمھارے بت جھوٹے، گمراہ اور گمراہ کرنے والے ہیں اگر تم اس سچے ر...

ابلیس ‏کا ‏پوتا ‏

     بیہقی میں امیر المؤمنین حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک روز ہم حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ تہامہ کی ایک پہاڑی پر بیٹھے تھے کہ اچانک ایک بوڑھا ہاتھ میں عصا لئے ہوئے حضور رسول الثقلین سید الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے حاضر ہوا اور سلام عرض کیا، حضور نے جواب دیا اور فرمایا، اس کی آواز جنّوں کی سی ہے، پھر آپ نے اس سے دریافت کیا تو کون ہے؟ اس نے عرض کیا حضور میں جنّ ہوں میرا نام ہامہ ہے، بیٹا ہیم کا اور ہیم بیٹا لاقیس کا اور لاقیس بیٹا ابلیس کا ہے ، حضور نے فرمایا تو گویا تیرے اور ابلیس کے درمیان صرف دو پشتیں ہیں، پھر فرمایا اچھا یہ بتاؤ تمھاری عمر کتنی ہے ؟ اس نے کہا یا رسول اللہ! جتنی عمر دنیا کی ہے اتنی ہی میری ہے کچھ تھوڑی سی کم ہے، حضور جن دنوں قابیل نے ہابیل کو قتل کیا تھا اس وقت میں کئی برس کا بچہ ہی تھا مگر بات سمجھتا تھا، پہاڑوں میں دوڑتا پھرتا تھا اور لوگوں کا کھانا و غلہ چوری کرلیا کرتا تھا اور لوگوں کے دلوں میں وسوسے بھی ڈال لیتا تھا کہ وہ اپنے خویش و اقرباء سے بدسلوکی کریں ۔      حضور نے فرمایا: تب تو تم بہت برے ہو...

حضرت ‏صدیق ‏اکبر ‏رضی ‏اللہ ‏عنہ ‏کاخواب

     حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ قبل از اسلام ایک بہت بڑے تاجر تھے ، آپ تجارت کے سلسلے میں ملک شام میں تشریف فرما تھے کہ ایک رات خواب میں دیکھا کہ چاند اور سورج آسمان سے اتر کر ان کی گود میں آپڑے ہیں، حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے اپنے ہاتھ سے چاند اور سورج کو پکڑ کر اپنے سینے سے لگا لیا اور انہیں اپنی چادر کے اندر کر لیا صبح اٹھے تو ایک عیسائی راہب کے پاس پہنچے اور اس سے اس خواب کی تعبیر پوچھی، راہب نے پوچھا آپ کون ہیں؟ آپ نے فرمایا میں ابوبکر ہوں اور مکہ کا رہنے والا ہوں راہب نے پوچھا کون سے قبیلہ سے ہیں آپ؟ فرمایا! بنو ہاشم سے، اور ذریعۂ معاش کیا ہے ؟؛فرمایا تجارت!؛راہب نے کہا تو پھر غور سے سن لو نبی آخر الزماں حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے آئے ہیں وہ بھی اسی قبیلہ بنی ہاشم سے ہیں اور وہ آخری نبی ہیں اور اگر وہ نہ ہوتے تو خدا تعالیٰ زمین و آسمان کو پیدا نہ فرماتا اور کسی نبی کو بھی پیدا نہ فرماتا، وہ اولین و آخرین کے سردار ہیں اور اے ابوبکر ! اور تم اس کے دین میں شامل ہوگے اور اس کے وزیر اور اس کے خلیفہ بنو گے یہ ہے تمھارے خواب کی تعبیر ...

حکایت نمبر5 یمن ‏کا ‏بادشاہ

     کتاب المستظرف اور حجۃاللہ علے العالمین اور تاریخ ابن عساکر میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک ہزار سال پیشتر یمن کا بادشاہ تُبّع اول حمیری تھا، ایک مرتبہ وہ اپنی سلطنت کے دورہ کو نکلا، بارہ ہزار عالم اور حکیم اور ایک لاکھ بتیس ہزار سوار اور ایک لاکھ تیرہ ہزار پیادہ اپنے ہمراہ لئے اور اس شان سے نکلا کہ جہاں بھی پہنچتا اس کی شان و شوکتِ شاہی دیکھ کر مخلوق خدا چاروں طرف سے نظارہ کو جمع ہوجاتی، یہ بادشاہ جب دورہ کرتا ہوا مکہ معظمہ پہنچا تو اہل مکہ سے کوئی اسے دیکھنے نہ آیا، بادشاہ حیران ہوا اور اپنے وزیر اعظم سے اسکی وجہ پوچھیں تو اس نے بتایا کہ اس شہر میں ایک گھر ہے جسے بیت اللہ کہتے ہیں، اس کی اور اس کے خادموں کی جو یہاں کے باشندے ہیں تمام لوگ بے حد تعظیم کرتے ہیں اور جتنا آپ کا لشکر ہے اس سے کہیں زیادہ دور اور نزدیک کے لوگ اس گھر کی زیارت کو آتے ہیں اور یہاں کے باشندوں کی خدمت کرکے چلے جاتے ہیں،پھر آپ کا لشکر انکے خیال میں کیوں آئے، یہ سن کر بادشاہ کو غصہ آیا اور قسم کھاکر کہنے لگا کہ میں اس گھر کو کھدوادوں گا اور یہاں کے باشندوں کو قتل کروادوں گا ، یہ کہنا تھا...

جبریل ‏امین ‏اور ‏ایک ‏نورانی ‏تارہ

     ایک مرتبہ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے حضرت جبریلِ امین علیہ السلام سے دریافت فرمایا کہ اے جبریل تمہاری عمر کتنی ہے؟ تو جبریل نے عرض کیا حضور مجھے کچھ خبر نہیں ہاں اتنا جانتا ہوں کہ چوتھے حجاب میں ایک نورانی تارہ ستر ہزار برس کے بعد چمکتا تھا، میں نے اسے بہتر ہزار مرتبہ چمکتے دیکھا ہے ل، حضور علیہ السلام نے یہ سن کر فرمایا   “وَعِزَّتِ رَبِّی اَنا ذٰلِکَ ال٘کَو٘کَب٘ میرے رب کی عزت کی قسم! میں ہی وہ نورانی تارہ ہوں ۔ ( روح البیان ص974 ج1) سبق: ہمارے حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کائنات کی ہر چیز سے پہلے پیدا فرمائے گئے ہیں اور آپ کا نور پاک اس وقت بھی تھا جب کہ نہ کوئی فرشتہ تھا نہ کوئی بشر نہ زمین تھی نہ آسمان اور نہ کوئی اور شئے ۔

ایک ‏عقلمند ‏بڑھیا

     ایک عالم نے ایک بڑھیا کو چرخہ کاتنے دیکھ کر فرمایا کہ بڑھیا! ساری عمر چرخہ ہی کاتا یا کچھ اپنے خدا کی بھی پہچان کی؟ بڑھیا نے جواب دیا کہ بیٹا سب کچھ اسی چرخہ میں دیکھ لیا، فرمایا! بڑی بی! یہ تو بتاؤ کہ خدا موجود ہے یا نہیں؟  بڑھیا نے جواب دیا کہ ہاں ہر گھڑی اور رات دن ہر وقت خدا موجود ہے، عالِم نے فرمایا مگر اس کی دلیل؟ بڑھیا بولی، دلیل یہ میرا چرخہ، عالِم نے پوچھا یہ کیسے؟ وہ بولی وہ ایسے کی جب تک میں چرخہ کو چلاتی رہتی ہوں یہ برابر چلتا رہتا ہے اور جب میں اسے چھوڑ دیتی ہوں تب یہ ٹھہر جاتا ہے تو جب اس چھوٹے سے چرخہ کو ہر وقت چلانے والے کی ضرورت ہے تو زمین و آسمان، چاند،سورج کے اتنے بڑے چرخوں کو کس طرح چلانے والے کی ضرورت نہ ہوگی؟ پس جس طرح میرے کاٹھ کے چرخہ کو ایک چلانے والا چاہیے اسی طرح ارض و سماں کے چرخہ کو چلانے والا کوئی ایک ہونا چاہئے جب تک وہ چلائے گا یہ چرخے چلے گے اور وہ جب چھوڑ دے گا تو یہ رک جائے گےمگر ہم نے کبھی زمین و آسمان ، چاند سورج کو ٹھہرے نہیں دیکھا تو جان لیا کہ ان کا چلانے والا ہر گھڑی موجود ہے۔      مولوی صاحب نے سوا...

حضرت ‏امام ‏جعفر ‏صادق ‏رضی ‏اللہ ‏تعالی ‏عنہ ‏اور ‏ایک ‏دہریہ ‏ملاح ‏

خدا کی ہستی کے ایک منکر کی جو ملاح تھا حضرت امام جعفر صادق رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے گفتگو ہوئی، وہ ملاح کہتا تھا کہ خدا کوئی نہیں،(معاذ اللہ!) حضرت امام جعفر صادق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس سے فرمایا تم جہاز ران ہو، یہ تو بتاؤ کبھی سمندری طوفان سے بھی تمھیں سابقہ پڑا ؟ وہ بولا ہاں! مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ ایک مرتبہ سمندر کے سخت طوفان میں میرا جہاز پھنس گیا تھا، حضرت امام نے فرمایا پھر کیا ہوا؟ وہ بولا، میرا جہاز غرق ہوگیا اور سب لوگ جو اس پر سوار تھے ڈوب کر ہلاک ہوگئے ، آپ نے پوچھا اور تم کیسے بچ گئے؟ وہ بولا میرے ہاتھ جہاز کا ایک تختہ آگیا، میں اس کے سہارے تیرتا ہوا ساحل کے کچھ قریب پہنچ گیا مگر ابھی ساحل دور ہی تھا کہ وہ تختہ بھی ہاتھ سے چھوٹ گیا، پھر میں نے خود ہی کوشش شروع کردی اور ہاتھ پیر مارکر کسی نہ کسی طرح کنارے پر آ لگا، حضرت امام جعفر صادق رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرمانے لگے، لو اب سنو!      جب تم اپنے جہاز پر سوار تھے تو تمھیں اپنے جہاز پر اعتماد و بھروسہ تھا کہ یہ جہاز پار لگا دے گا اور جب وہ ڈوب گیا تو تمھارا اعتماد و بھروسہ اس تختے پر رہا جو اتفاقا تمھارے ہاتھ ...

حضرت ‏امام ‏اعظم ‏کا ‏یک ‏دہریہ ‏سے ‏مناظرہ

ہمارے امام حضرت امام اعظم رضہ اللہ تعالیٰ عنہ کا ایک دہریہ ، خدا کی ہستی کے منکر سے مناظرہ مقرر ہوا اور موضوع مناظرہ یہی مسئلہ تھا کہ عالم کا کوئی خالق ہے یا نہیں؟ اس اہم مسئلہ پر مناظرہ اور پھر اتنے بڑے امام سے، چنانچہ میدان مناظرہ میں دوست دشمن سبھی جمع ہوگئے مگر حضرت امام اعظم وقت مقررہ اسے بہت دیر کے بعد مجلس میں تشریف لائے ۔ دہریہ نے پوچھا کہ آپ نے اتنی دیر کیوں لگائی؟ آپ نے فرمایا کہ اگر میں اس کا جواب یہ دوں کہ میں ایک جنگل کی طرف نکل گیا تھا وہاں ایک عجیب واقعہ نظر آیا جس کو دیکھ کر میں حیرت میں آکر وہیں کھڑا ہوگیا اور وہ واقعہ یہ تھا کہ دریا کنارے ایک درخت تھا، دیکھتے ہی دیکھتے وہ درخت خود بخود کٹ کر زمین پر گر پڑا پھر خود بخود اس کے تختے تیار ہوئے پھر ان تختوں کی خود بخود ایک کشتی تیار ہوئی اور خود بخود ہی دریا میں چل گئی اور پھر خود بخود ہی وہ دریا کے اس طرف کر مسافروں کو اس طرف اور اس طرف کے مسافروں کو اس طرف لانے اور لے جانے لگی، پھر ہر ایک سواری سے خود ہی کرایہ وصول کرتی تھی،      تو بتاؤ تم میری اس بات پر یقین کرلو گے ؟    ...