قبیلۂ ازوشنؤۃ میں ایک شخص تھا جس کا نام ضماد تھا، وہ اپنے جنتر منتر سے لوگوں کے جن و بھوت وغیرہ کے سائے اتارا کرتا تھا، ایک مرتبہ وہ مکہ معظمہ میں آیا تو بعض لوگوں کو یہ کہتے سنا کہ محمد کو جنّ کا سایہ ہے یا جنون ہے(معاذاللہ) ضماد نے کہا میں ایسے بیماروں کا علاج اپنے جنتر منتر سے کرلیتا ہوں مجھے دکھاؤ، وہ کہاں ہے؟ وہ اسے حضور کے پاس لے آئے۔ ضماد جب حضور کے پاس بیٹھا تو حضور نے فرمایا، ضماد! اپنا جنتر منتر پھر سنانا پہلے میرا کلام سنو چنانچہ آپ نے اپنی زبانِ حق سے یہ خطبہ پڑھنا شروع کیا:
- اَل٘حَم٘دُ لِلَّهِ نَح٘مَدُهٗ وَ نَس٘تَعِی٘نُہٗ وَ نَس٘تَغ٘فِرُہٗ وَ نُؤ٘مِنُ بِہٖ وَ نَتَوَکَّلُ عَلَی٘هِ وَ نَعُو٘ذُ بِاللّٰهِ مِن٘ شُرُو٘رِ اَن٘فُسَنَا وَ مِن٘ سَیِّاٰتِ اَع٘مَالِنَا مَن٘ یَّھ٘دِهِ اللّٰهُ فَلَا مُضِلَّ لَهُ وَ مَن٘ یُّض٘لِل٘هُ فَلَا ھَادِیَ لَهُ وَ اَش٘ھَدُ اَن٘ لَّااِلــٰهَ اِلَّا اللَّهُ وَح٘دَہٗ لَا شَرِی٘کَ لَهٗ وَش٘ھَدُ اَنَّ مُحَـمَّدًا عَب٘ـدُهٗ وَرَسُو٘لہٗ ـ
ضماد نے یہ خطبۂ مبارکہ سنا تو مبہوت رہ گیا اور عرض کرنے لگا حضور! ایک بار پھر پڑھئے، حضور نے پھر یہی خطبہ پڑھا، اب ضماد ( وہ ضماد جو سایہ اتارنے آیا تھا اس کا اپنا سایۂ کفر اترتا ہے دیکھئے) نہ رہ سکا اور بولا :
"خدا کی قسم ! میں نے کئی کاہنوں، ساحروں اور شاعروں کی باتیں سنیں لیکن جو آپ سے میں نے سنا ہے یہ تو معناً ایک بحرِ ذخار ہے اپنا ہاتھ بڑھائیے، میں آپ کی بیعت کرتا ہوں، یہ کہہ کر مسلمان ہوگیا اور جو لوگ اسے علاج کرنے کے لئے لائے تھے حیران و پشیمان واپس پھرے"
(مسلم صــــ320 ج1)
سبق: ہمارے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان حق ترجمان میں وہ تاثیر پاک تھی کے بڑے بڑے سنگ دل موم ہوجاتے تھےںاور یہ بھی معلوم ہوا کہ ہمارے حضور کو جو لوگ ساحر و مجنون کہتے تھے در اصل وہ خود ہی مجنون تھے اسی طرح آج بھی جو شخص حضور کے علم و اختیار اور آپ کے نورِجمال کا انکار کرتا ہے وہ در اصل خود ہی جاہل، سیاہ دل اور سیاہ رو ہے۔
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں
اسلامی واقعات پڑھنے کا بہت شکریہ