نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

ایک ‏جنتر ‏منتر ‏سے ‏علاج ‏کرنے ‏والا ‏

     قبیلۂ ازوشنؤۃ میں ایک شخص تھا جس کا نام ضماد تھا، وہ اپنے جنتر منتر سے لوگوں کے جن و بھوت وغیرہ کے سائے اتارا کرتا تھا، ایک مرتبہ وہ مکہ معظمہ میں آیا تو بعض لوگوں کو یہ کہتے سنا کہ محمد کو جنّ کا سایہ ہے یا جنون ہے(معاذاللہ) ضماد نے کہا میں ایسے بیماروں کا علاج اپنے جنتر منتر سے کرلیتا ہوں مجھے دکھاؤ، وہ کہاں ہے؟ وہ اسے حضور کے پاس لے آئے۔ ضماد جب حضور کے پاس بیٹھا تو حضور نے فرمایا، ضماد! اپنا جنتر منتر پھر سنانا پہلے میرا کلام سنو چنانچہ آپ نے اپنی زبانِ حق سے یہ خطبہ پڑھنا شروع کیا:


  1. اَل٘حَم٘دُ لِلَّهِ نَح٘مَدُهٗ وَ نَس٘تَعِی٘نُہٗ وَ نَس٘تَغ٘فِرُہٗ وَ نُؤ٘مِنُ بِہٖ وَ نَتَوَکَّلُ عَلَی٘هِ وَ نَعُو٘ذُ بِاللّٰهِ مِن٘ شُرُو٘رِ اَن٘فُسَنَا وَ مِن٘ سَیِّاٰتِ اَع٘مَالِنَا مَن٘ یَّھ٘دِهِ اللّٰهُ فَلَا مُضِلَّ لَهُ وَ مَن٘ یُّض٘لِل٘هُ فَلَا ھَادِیَ لَهُ وَ اَش٘ھَدُ اَن٘ لَّااِلــٰهَ اِلَّا اللَّهُ وَح٘دَہٗ لَا شَرِی٘کَ لَهٗ وَش٘ھَدُ اَنَّ مُحَـمَّدًا عَب٘ـدُهٗ وَرَسُو٘لہٗ ـ

  ضماد نے یہ خطبۂ مبارکہ سنا تو مبہوت رہ گیا اور عرض کرنے لگا حضور! ایک بار پھر پڑھئے، حضور نے پھر یہی خطبہ پڑھا، اب ضماد ( وہ ضماد جو سایہ اتارنے آیا تھا اس کا اپنا سایۂ کفر اترتا ہے دیکھئے) نہ رہ سکا اور بولا :
     "خدا کی قسم ! میں نے کئی کاہنوں، ساحروں اور شاعروں کی باتیں سنیں لیکن جو آپ سے میں نے سنا ہے یہ تو معناً ایک بحرِ ذخار ہے اپنا ہاتھ بڑھائیے، میں آپ کی بیعت کرتا ہوں، یہ کہہ کر مسلمان ہوگیا اور جو لوگ اسے علاج کرنے کے لئے لائے تھے حیران و پشیمان واپس پھرے"
(مسلم صــــ320 ج1)

سبق: ہمارے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان حق ترجمان میں وہ تاثیر پاک تھی کے بڑے بڑے سنگ دل موم ہوجاتے تھےںاور یہ بھی معلوم ہوا کہ ہمارے حضور کو جو لوگ ساحر و مجنون کہتے تھے در اصل وہ خود ہی مجنون تھے اسی طرح آج بھی جو شخص حضور کے علم و اختیار اور آپ کے نورِجمال کا انکار کرتا ہے وہ در اصل خود ہی جاہل، سیاہ دل اور سیاہ رو ہے۔

تبصرے

Popular Posts

حکایت نمبر5 یمن ‏کا ‏بادشاہ

     کتاب المستظرف اور حجۃاللہ علے العالمین اور تاریخ ابن عساکر میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک ہزار سال پیشتر یمن کا بادشاہ تُبّع اول حمیری تھا، ایک مرتبہ وہ اپنی سلطنت کے دورہ کو نکلا، بارہ ہزار عالم اور حکیم اور ایک لاکھ بتیس ہزار سوار اور ایک لاکھ تیرہ ہزار پیادہ اپنے ہمراہ لئے اور اس شان سے نکلا کہ جہاں بھی پہنچتا اس کی شان و شوکتِ شاہی دیکھ کر مخلوق خدا چاروں طرف سے نظارہ کو جمع ہوجاتی، یہ بادشاہ جب دورہ کرتا ہوا مکہ معظمہ پہنچا تو اہل مکہ سے کوئی اسے دیکھنے نہ آیا، بادشاہ حیران ہوا اور اپنے وزیر اعظم سے اسکی وجہ پوچھیں تو اس نے بتایا کہ اس شہر میں ایک گھر ہے جسے بیت اللہ کہتے ہیں، اس کی اور اس کے خادموں کی جو یہاں کے باشندے ہیں تمام لوگ بے حد تعظیم کرتے ہیں اور جتنا آپ کا لشکر ہے اس سے کہیں زیادہ دور اور نزدیک کے لوگ اس گھر کی زیارت کو آتے ہیں اور یہاں کے باشندوں کی خدمت کرکے چلے جاتے ہیں،پھر آپ کا لشکر انکے خیال میں کیوں آئے، یہ سن کر بادشاہ کو غصہ آیا اور قسم کھاکر کہنے لگا کہ میں اس گھر کو کھدوادوں گا اور یہاں کے باشندوں کو قتل کروادوں گا ، یہ کہنا تھا...

حکایت نمبر 61 حضرت ابراہیم علیہ السلام اور چار پرندے

حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ایک روز سمندر کے کنارے ایک آدمی مرا ہوا دیکھا ۔آپ نے دیکھا کہ سمندر کی مچھلیاں اس کی لاش کھارہی ہیں ۔اور تھوڑی دیر کے بعد پھر پرندے آکر اس لاش کو کھانے لگے۔ پھر آپ نے دیکھا کہ جنگل کے کچھ درندے آئے اور وہ بھی اس لاش کو کھانے لگے۔آپ نے یہ منظر دیکھا تو آپ کو شوق ہوا کہ (آپ ملاحظہ فرمائیں ) کہ مردے کس طرح زندہ کئے جائے گے چنانچہ آپ نے خدا سے عرض کیا ۔ الٰہی! مجھے یقین ہے کہ تو مردوں کو زندہ فرمائے گا ۔ اور ان کے اجزاء دریائی جانوروں پرندوں اور درندوں کی پیٹوں سے جمع فرمائے گا لیکن میں یہ عجیب منظر دیکھنے کی آرزو رکھتا ہوں ۔خدا نے فرمایا اچھا اے خلیل ! تم چار پرندے لے کر انہیں اپنے ساتھ ملالو تاکہ اچھی طرح انکی شناخت ہو جائے پھر انہیں ذبح کرکے ان کے اجزاء باہم ملا جلا کر انکا ایک ایک حصہ ایک ایک پہاڑ پر رکھ دو اور پھر انکو بلاؤ اور دیکھو وہ کس طرح زندہ ہوکر تمہارے پاس دوڑتے ہوئے آتے ہیں۔                   چنانچہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے مور، کبوتر، مرغ اور کوا یہ چار پرندے لئے اور انہیں ذبح کیا ۔اور ان...

حکایت نمبر 60 حضرت عزیر علیہ السلام اور خدا کی قدرت کے کرشمے

بنی اسرائیل جب خدا کی نا فرمانی میں حد سے زیادہ بڑھ گئے تو خدا نے ان ہر ایک ظالم بادشاہ بخت نصر کو مسلط کردیا ، جس نے بنی اسرائیل کو قتل کیا، گرفتار کیا اور تباہ کیا ؛ اور بیت المقدس کو برباد و ویران کرڈالا ، حضرت عزیر علیہ السلام ایک دن شہر میں تشریف لائے تو آپ نے شہر کی ویرانی و بربادی کو  دیکھا تمام شہر میں پھرے کسی شخص کو وہاں نہ پایا شہر کی تمام عمارتوں کو منہدم دیکھا یہ منظر دیکھ کر آپ نے براہ تعجب فرمایا ۔  *اَنٌی یُحْیٖ ھٰذِہِ اللہُ بَعدَ مَوتِھا۔* یعنی اللہ اس شہر کو موت کے بعد اسے پھر کیسے ژندہ فرمائے گا ؟       آپ ایک دراز گوش پر سوار تھے اور آپ کے پاس ایک برتن کھجور اور ایک پیالہ انگور کے رس کا تھا . آپ نے اپنے دراز گوش کو ایک درخت سے باندھا اور اس درخت کے نیچے آپ سوگئے ۔جب سوگئے تو خدا نے اسی حالت میں آپ کی روح قبض کر لی اور گدھا بھی مرگیا اس واقعی کے ستر سال بعد اللہ تعالیٰ نے شاہان فارس میں سے ایک بادشاہ کو مسلط کردیا۔ اور وہ اپنی فوج لے کر بیت المقدس پہنچا۔ اور اس کو پہلے سے بھی  بہتر طریقے سے آباد کیا اور بنی اسرائیل میں سے جو...