بنی اسرائیل جب خدا کی نا فرمانی میں حد سے زیادہ بڑھ گئے تو خدا نے ان ہر ایک ظالم بادشاہ بخت نصر کو مسلط کردیا ، جس نے بنی اسرائیل کو قتل کیا، گرفتار کیا اور تباہ کیا ؛ اور بیت المقدس کو برباد و ویران کرڈالا ، حضرت عزیر علیہ السلام ایک دن شہر میں تشریف لائے تو آپ نے شہر کی ویرانی و بربادی کو دیکھا تمام شہر میں پھرے کسی شخص کو وہاں نہ پایا شہر کی تمام عمارتوں کو منہدم دیکھا یہ منظر دیکھ کر آپ نے براہ تعجب فرمایا ۔
*اَنٌی یُحْیٖ ھٰذِہِ اللہُ بَعدَ مَوتِھا۔*
یعنی اللہ اس شہر کو موت کے بعد اسے پھر کیسے ژندہ فرمائے گا ؟
آپ ایک دراز گوش پر سوار تھے اور آپ کے پاس ایک برتن کھجور اور ایک پیالہ انگور کے رس کا تھا . آپ نے اپنے دراز گوش کو ایک درخت سے باندھا اور اس درخت کے نیچے آپ سوگئے ۔جب سوگئے تو خدا نے اسی حالت میں آپ کی روح قبض کر لی اور گدھا بھی مرگیا اس واقعی کے ستر سال بعد اللہ تعالیٰ نے شاہان فارس میں سے ایک بادشاہ کو مسلط کردیا۔ اور وہ اپنی فوج لے کر بیت المقدس پہنچا۔ اور اس کو پہلے سے بھی بہتر طریقے سے آباد کیا اور بنی اسرائیل میں سے جو لوگ باقی رہے تھے خدا تعالیٰ انہیں پھر یہاں لایا اور وہ بیت المقدس اور اس کے نواح میں آباد ہوئے اور انکی تعداد بڑھتی رہی اس زمانہ میں اللہ تعالیٰ نے حضرت عزیر علیہ السلام کو دنیا کی آنکھوں سے پوشیدہ رکھا اور کوئی آپ کو دیکھ نہ سکا جب آپ کی وفات کو سو سال گذر گئے تو اللہ تعالیٰ نے دوبارہ آپ کو زندہ کیا پہلے آنکھوں میں جان آئی ابھی تمام جسم مردہ تھا وہ آپ کے دیکھتے دیکھتے زندہ کیا گیا جس وقت آپ سوئے تھے وہ صبح کا وقت تھا اور سو سال کے بعد جب آپ دوبارہ زندہ کئے گئے تو یہ شام کا وقت تھا۔ خدا نے پوچھا اے عزیر ! تم یہاں کتنے ٹھہرے ؟ آپ نے اندازہ سے عرض کیا کہ ایک دن یا کچھ کم۔ آپ کا خیال یہ ہوا کہ یہ اسی دن کی شام ہے جس کی صبح کو سوئے تھے خدا نے فرمایا بلکہ تم سو برس ٹھہرے ہو ۔ اپنے کھانے اور پانی یعنے کھجور اور انگور کے رس کو دیکھئے ! کہ ویسا ہی ہے۔ اس میں بو تک نہیں آئی اور اپنے گدھے کو بھی ذرا دیکھئے آپ نے دیکھا تو وہ مرا ہوا اور گل چکا تھا ۔ اعضاء اسکے بکھرے ہوئے اور ہڈیاں سفید چمک رہی تھی آپ کی نگاہ کے سامنے اللہ نے اس گدھے کو بھی زندہ فرمایا۔ پہلے اسکے اجزاء جمع ہوئے اور اپنے اپنے موقع پر آئے ۔ہڈیوں پر گوشت چڑھا ۔گوشت پر کھال آئی بال نکلے پھر اس میں روح آئی اور آپ کے دیکھتے دیکھتے ہی وہ اٹھ کھڑا ہوا اور آواز کرنے لگا ۔آپ نے اللہ کی قدرت کا مشاہدہ کیا۔ اور فرمایا میں جانتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ ہر شے پر قادر ہے ۔ پھر آپ نے اپنی سواری پر سوار ہوکر اپنے محلہ میں تشریف لائے آپ کو کوئی پہچانتا نہ تھا اندازے سے آپ اپنے مکان پر پہنچے عمر آپ کی وہی چالیس سال کی تھی ۔ایک ضعیف بڑھیا ملی جس کے پاؤں رہ گئے تھے اور نابینا ہوگئی تھی وہ آپ کے گھر کی باندی تھی اور اس نے آپ کو دیکھا تھا آپ نے اس سے پوچھا کہ یہ عزیر کا مکان ہے ۔اس نے کہا ہاں۔ مگر عزیز کو گم ہوئے سو برس گزر گئے ۔یہ کہہ کر خوب روئی آپ نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے مجھے سو برس مردہ رکھا پھر زندہ کیا ۔بڑھیا بولی عزیر علیہ السلام مستجاب الدعوات تھے۔ جو دعا کرتے تھے قبول ہوجایا کرتی تھی ۔ آپ اگر عزیر ہیں تو دعا کیجئے میں بینا ہو جاؤں تاکہ میں اپنی آنکھوں سے آپ کو دیکھوں ۔
آپ نے دعا کی تو وہ بینا ہوگئی پھر آپ نے اس کا ہاتھ پکڑ کر فرمایا خدا کے حکم سے اٹھ یہ فرماتے ہی اس کے مارے ہوئے پاؤں بھی درست ہوگئے اس نے آپ کو دیکھ کر پہچانا اور کہا میں گواہی دیتی ہوں کہ آپ بیشک عزیر ہی ہیں ۔پھر وہ آپ کو محلے میں لے گئی۔ وہاں ایک مجلس میں آپ کے فرزند تھے ۔جن کی عمر ایک سو اٹھارہ سال کی ہوچکی تھی اور آپ کے پوتے بھی تھے جو بوڑھے ہوچکے تھے۔ بڑھیا نے مجلس میں پکارا ۔یہ حضرت عزیز تشریف لائے ہیں اہل مجلس نے اس بات کو جھٹلایا ۔اس نے کہا مجھے دیکھو میں آپ کی دعا سے بالکل تندرست اور بینا ہوگئی ہوں ۔لوگ اٹھے اور آپ کے پاس آئے آپ کے فرزند نے کہا ۔میرے والد صاحب کے شانوں کے درمیان سیاہ بالوں کا ایک ہلال تھا ۔جسم مبارک کھول کر دیکھا گیا۔ وہ موجود تھا۔۔
*(قرآن کریم پــ3 عــ3 اور خزائن العرفان صــ65)*
*ســبق* : خدا کی نا فرمانی کا ایک نتیجہ یہ بھی ہے کہ ظالم حاکم مسلط کردیے جاتے ہیں اور ملک برباد و ویران ہوجاتے ہیں۔اور اللہ تعالیٰ بڑی قدرتوں کا مالک ہے۔جو چاہے کرسکتا ہے اور ایک دن اس نے سب کو دوبارہ زندہ کرکے اپنے حضور بلانا ہے اور حساب لینا ہے اور یہ بھی معلوم ہوا کہ نبی کا جسم موت وارد ہونے کے بعد بھی صحیح سالم رہتا ہے ۔ہاں جو گدھے ہیں وہی کر مٹی میں مل جاتے اور مٹی ہوجاتے ہیں۔
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں
اسلامی واقعات پڑھنے کا بہت شکریہ