نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

حکایت نمبر5 یمن ‏کا ‏بادشاہ

     کتاب المستظرف اور حجۃاللہ علے العالمین اور تاریخ ابن عساکر میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک ہزار سال پیشتر یمن کا بادشاہ تُبّع اول حمیری تھا، ایک مرتبہ وہ اپنی سلطنت کے دورہ کو نکلا، بارہ ہزار عالم اور حکیم اور ایک لاکھ بتیس ہزار سوار اور ایک لاکھ تیرہ ہزار پیادہ اپنے ہمراہ لئے اور اس شان سے نکلا کہ جہاں بھی پہنچتا اس کی شان و شوکتِ شاہی دیکھ کر مخلوق خدا چاروں طرف سے نظارہ کو جمع ہوجاتی، یہ بادشاہ جب دورہ کرتا ہوا مکہ معظمہ پہنچا تو اہل مکہ سے کوئی اسے دیکھنے نہ آیا، بادشاہ حیران ہوا اور اپنے وزیر اعظم سے اسکی وجہ پوچھیں تو اس نے بتایا کہ اس شہر میں ایک گھر ہے جسے بیت اللہ کہتے ہیں، اس کی اور اس کے خادموں کی جو یہاں کے باشندے ہیں تمام لوگ بے حد تعظیم کرتے ہیں اور جتنا آپ کا لشکر ہے اس سے کہیں زیادہ دور اور نزدیک کے لوگ اس گھر کی زیارت کو آتے ہیں اور یہاں کے باشندوں کی خدمت کرکے چلے جاتے ہیں،پھر آپ کا لشکر انکے خیال میں کیوں آئے، یہ سن کر بادشاہ کو غصہ آیا اور قسم کھاکر کہنے لگا کہ میں اس گھر کو کھدوادوں گا اور یہاں کے باشندوں کو قتل کروادوں گا ، یہ کہنا تھا کہ بادشاہ کے ناک ، منہ اور آنکھوں سے خون بہنا شروع ہوگیا اور ایسا بدبودار مادہ بہنے لگا کہ اس کے پاس بیٹھنے کی بھی کسی کو طاقت نہ رہی، اس مرض کا علاج کیا گیا مگر افاقہ نہ ہوا، شام کے وقت بادشاہ کے ہمراہی علماء میں سے ایک عالم ربانی تشریف لائے اور نبض دیکھ کر فرمایا، مرض آسمانی ہے اور علاج زمین کا ہورہا ہے، بادشاہ! آپ نے اگر کوئی بری نیت کی ہے تو فوراً اس سے توبہ کیجئے، بادشاہ نے دل ہی دل میں بیت اللہ شریف اور خدام کعبہ کے متعلق اپنے ارادہ سے توبہ کی، توبہ کرتے ہی اسکا وہ خون اور مادہ بہنا بند ہوگیا اور پھر صحت کی خوشی میں اس نے بیت اللہ شریف کو ریشمیں غلاف چڑھایا اور شہر کے ہر باشندہ کو سات سات اشرفی اور سات سات ریشمی جوڑے نذر کئے۔
     پھر یہاں سے چل کر جب مدینہ منورہ پہنچا تو ہمراہی علماء نے جو کتب سماویہ کے عالم تھے وہاں کی مٹی کو سونگھا اور کنکریوں کو دیکھا اور نبی آخر الزماں کی ہجرت گاہ کی جو علامتیں انہوں نے پڑھی تھیں ان کے مطابق اس سر زمین کو پایا تو باہم عہد کرلیا کہ ہم یہاں ہی مرجائیں گے مگر اس سر زمین کو نہ چھوڑیں گے، اگر ہماری قسمت نے یاوری کی تو کبھی نہ کبھی جب نبی آخر الزماں صلی اللہ علیہ وسلم یہاں تشریف لائیں گے ہمیں بھی زیارت کا شرف حاصل ہو جائے گا، ورنہ ہماری قبروں پر تو ضرور ہی کبھی نہ کبھی ان کی جوتیوں کی مقدس خاک اڑکر پڑجائے گی جو ہماری نجات کے لئے کافی ہے۔
     یہ سن کر بادشاہ نے ان عالموں کے واسطے چار سو مکان بنوائے اور اس بڑے عالم ربانی کے مکان کے پاس حضور صلی اللہ علیہ کی خاطر ایک دو منزلہ عمدہ مکان تیار کرایا اور وصیت کردی کہ جب آپ تشریف لائیں تو یہ مکان آپ کی آرام گاہ ہوگی اور ان چار سو علماء کی کافی مالی امداد بھی کی اور کہا، تم ہمیشہ یہیں رہو اور پھر اس بڑے عالم ربانی کو ایک خط لکھ دیا اور کہا کہ میرا اس نبی آخر الزماں صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں پیش کردینا اور اگر زندگی بھر تمھیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت کا موقع نہ ملے تو اپنی اولاد کو وصیت کر دینا کہ نسلاً بعد نسل میرا یہ خط محفوظ رکھیں حتٰی کہ سرکارِ ابد قرار صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کیا جائے، یہ کہہ کر بادشاہ وہاں سے چل دیا ۔
     وہ خط نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ایک ہزار سال بعد پیش ہوا کیسے ہوا اور خط میں کیا لکھا تھا؟ سنئیے اور عظمت مصطفٰے صلی اللہ علیہ وسلم کا اعتراف فرمائیے، خط کا مضمون یہ تھا:

ترجمہ:" کمترین مخلوق تبع اول حمیری کی طرف سے شفیع المذنبین سید المرسلین محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ امابعد! اے اللہ کے حبیب! میں آپ پر ایمان لاتا ہوں اور جو کتاب آپ پر نازل ہوگی اس پر بھی ایمان لاتا ہوں اور میں آپ کے دین پر ہوں، پس اگر مجھے آپ کی زیارت کا موقع مل گیا تو بہت اچھا و غنیمت اور اگر میں آپ کی زیارت نہ کرسکا تو میری شفاعت فرمانا اور قیامت کے روز مجھے فراموش نہ کرنا، میں آپ کی پہلی امت میں سے ہوں اور آپ کے ساتھ آپ کی آمد سے پہلے ہی بیعت کرتا ہوں، میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ ایک ہے اور آپ اس کے سچے رسول ہیں"

     شاہ یمن کا یہ خط نسلاً بعد نسل ان چار سو علماء کے اندر حرزِجان کی حیثیت سے محفوظ چلا آیا یہاں تک کہ ایک ہزار سال کا عرصہ گزر گیا، ان علماء کی اولاد اس کثرت سے بڑھی کہ مدینہ کی آبادی میں کئی گنا اضافہ ہوگیا اور یہ خط دست بدست مع وصیت کے اس بڑے عالم ربانی کی اولاد میں سے حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس پہنچا اور آپ نے وہ خط اپنے غلام خاص ابو لیلی کی تحویل میں رکھا اور جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم مکہ معظمہ سے ہجرت فرماکر مدینہ منورہ پہنچے اور مدینہ منورہ کی الوداعی گھاٹی ثنیات کی گھاٹیوں سے آپ کی اونٹنی نمودار ہوئی اور مدینہ کے خوش نصیب لوگ محبوب خدا کا استقبال کرنے جوق در جوق آرہے تھے اور کوئی اپنے مکانوں کو سجا رہا تھا تو کوئی گلیوں اور سڑکوں کو صاف کررہا تھا کوئی دعوت کا انتظام کررہا تھا اور سب یہی اصرار کررہے تھے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم میرے گھر تشریف فرما ہوں ، حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میری اونٹنی کی نکیل چھوڑ دو جس گھر میں یہ ٹھہرے گی اور بیٹھ جائے گی وہی میری قیام گاہ ہوگی، چنانچہ جو دو منزلہ مکان شاہ یمن تبع نے حضور کی خاطر بنوایا تھا وہ اس وقت حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی تحویل میں تھا، اسی میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی اونٹنی جاکر ٹھہر گئی۔لوگوں نے ابو لیلی کو بھیجا کہ جاؤ حضور کو شاہ یمن تبع کا خط دے آؤ جب ابو لیلی حاضر ہوا تو حضور نے اسے دیکھتے ہی فرمایا تو ابو لیلی ہے؟ یہ سن کر ابو لیلی حیران ہوگیا حضور نے فرمایا، میں محمد رسول اللہ ہوں ، شاہ یمن کا جو خط تمھارے پاس ہے لاؤ وہ مجھے دو چنانچہ ابو لیلی نے وہ خط دیا اور حضور نے پڑھ کر فرمایا ، صالح بھائی تبع کو آفریں و شاباش ہے۔

(میزان الادیان صـــ171)

سبق : ہمارے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ہر زمانے میں چرچا رہا اور خوش قسمت افراد نے ہر دور میں حضور سے فیض پایا اور صلی اللہ علیہ وسلم انگلی پچھلی تمام باتیں جانتے ہیں اور یہ بھی معلوم ہوا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد آمد کی خوشی میں مکانات اور بازاروں کو سجایا جائے گھروں کو مزین کیا جائے اور جلوس نکالا جائے تو اسے بدعت کہنے والا خود کیوں بدعتی نہ ہوگا ۔

تبصرے

Popular Posts

حکایت نمبر 61 حضرت ابراہیم علیہ السلام اور چار پرندے

حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ایک روز سمندر کے کنارے ایک آدمی مرا ہوا دیکھا ۔آپ نے دیکھا کہ سمندر کی مچھلیاں اس کی لاش کھارہی ہیں ۔اور تھوڑی دیر کے بعد پھر پرندے آکر اس لاش کو کھانے لگے۔ پھر آپ نے دیکھا کہ جنگل کے کچھ درندے آئے اور وہ بھی اس لاش کو کھانے لگے۔آپ نے یہ منظر دیکھا تو آپ کو شوق ہوا کہ (آپ ملاحظہ فرمائیں ) کہ مردے کس طرح زندہ کئے جائے گے چنانچہ آپ نے خدا سے عرض کیا ۔ الٰہی! مجھے یقین ہے کہ تو مردوں کو زندہ فرمائے گا ۔ اور ان کے اجزاء دریائی جانوروں پرندوں اور درندوں کی پیٹوں سے جمع فرمائے گا لیکن میں یہ عجیب منظر دیکھنے کی آرزو رکھتا ہوں ۔خدا نے فرمایا اچھا اے خلیل ! تم چار پرندے لے کر انہیں اپنے ساتھ ملالو تاکہ اچھی طرح انکی شناخت ہو جائے پھر انہیں ذبح کرکے ان کے اجزاء باہم ملا جلا کر انکا ایک ایک حصہ ایک ایک پہاڑ پر رکھ دو اور پھر انکو بلاؤ اور دیکھو وہ کس طرح زندہ ہوکر تمہارے پاس دوڑتے ہوئے آتے ہیں۔                   چنانچہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے مور، کبوتر، مرغ اور کوا یہ چار پرندے لئے اور انہیں ذبح کیا ۔اور ان...

حکایت نمبر 60 حضرت عزیر علیہ السلام اور خدا کی قدرت کے کرشمے

بنی اسرائیل جب خدا کی نا فرمانی میں حد سے زیادہ بڑھ گئے تو خدا نے ان ہر ایک ظالم بادشاہ بخت نصر کو مسلط کردیا ، جس نے بنی اسرائیل کو قتل کیا، گرفتار کیا اور تباہ کیا ؛ اور بیت المقدس کو برباد و ویران کرڈالا ، حضرت عزیر علیہ السلام ایک دن شہر میں تشریف لائے تو آپ نے شہر کی ویرانی و بربادی کو  دیکھا تمام شہر میں پھرے کسی شخص کو وہاں نہ پایا شہر کی تمام عمارتوں کو منہدم دیکھا یہ منظر دیکھ کر آپ نے براہ تعجب فرمایا ۔  *اَنٌی یُحْیٖ ھٰذِہِ اللہُ بَعدَ مَوتِھا۔* یعنی اللہ اس شہر کو موت کے بعد اسے پھر کیسے ژندہ فرمائے گا ؟       آپ ایک دراز گوش پر سوار تھے اور آپ کے پاس ایک برتن کھجور اور ایک پیالہ انگور کے رس کا تھا . آپ نے اپنے دراز گوش کو ایک درخت سے باندھا اور اس درخت کے نیچے آپ سوگئے ۔جب سوگئے تو خدا نے اسی حالت میں آپ کی روح قبض کر لی اور گدھا بھی مرگیا اس واقعی کے ستر سال بعد اللہ تعالیٰ نے شاہان فارس میں سے ایک بادشاہ کو مسلط کردیا۔ اور وہ اپنی فوج لے کر بیت المقدس پہنچا۔ اور اس کو پہلے سے بھی  بہتر طریقے سے آباد کیا اور بنی اسرائیل میں سے جو...