نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

حکایت نمبر11 خالد ‏کی ‏ٹوپی

     حضرت خالد بن ولید رضی اللہ تعالیٰ عنہ جو اللہ کی تلواروں میں سے ایک تلوار تھے،آپ جس میدان جنگ میں تشریف لے جاتے اپنی ٹوپی کو ضرور سر پر رکھ جاتے اور ہمیشہ فتح ہی پاکر لوٹتے، کبھی شکست کا منھ نہ دیکھتے، ایک مرتبہ جنگ یرموک میں جب کہ میدان جنگ گرم ہورہا تھا حضرت خالد کی ٹوپی گم ہوگئی، آپ نے لڑنا چھوڑ کر ٹوپی کی تلاش شروع کردی، لوگوں نے جب دیکھا کہ تیر اور پتھر برس رہے ہیں، تلوار اور نیزہ اپنا کام کررہے ہیں، موت سامنے ہے اور اس عالم میں خالد کو اپنی ٹوپی کی پڑی ہوئی ہے اور وہ اسی کو ڈھونڈنے میں مصروف ہوگئے ہیں تو انہوں نے حضرت خالد سے کہا، جناب ٹوپی کا خیال چھوڑئیے اور لڑنا شروع کیجئے، حضرت خالد نے ان کی اس بات کی پروانہ کی اور ٹوپی کی بدستور تلاش شروع رکھی، آخر ٹوپی ان کو مل گئی تو انہوں نے خوش ہوکر کہا بھائیو! جانتے ہو مجھے یہ ٹوپی کیوں اتنی عزیز ہے؟ جان لو کہ میں نے آج تک جو جنگ بھی جیتی اسی ٹوپی کے طفیل، میرا کیا ہے سب اسی کی برکتیں ہیں، میں اس کے بغیر کچھ بھی نہیں اور اگر یہ میرے سرپر ہوتو دشمن میرے سامنے کچھ بھی نہیں، لوگوں نے کہا آخر اس ٹوپی کی کیا خوبی ہے؟؛تو فرمایا، یہ دیکھو اس میں کیا ہے، یہ حضور سرور عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے سرِانور کے بال مبارک ہیں جو میں نے اسی میں سی رکھے ہیں۔ حضور ایک مرتبہ عمرہ بجالانے کو بیت اللہ شریف تشریف لے گئے اور سر مبارک کے بال اتروائے تو اس وقت ہم میں سے ہر ایک شخص بال مبارک لینے کی کوشش کررہا تھا اور ہر ایک دوسرے پر گرنا تھا تو میں نے بھی اس کوشش میں آگے بڑھ کر چند بال حاصل کرلئے تھے اور پھر اس ٹوپی میں سی لئے، یہ ٹوپی اب میرے لئے جنکی برکات و فتوحات کا ذریعہ ہے، میں اسی کے صدقہ میں ہر میدان کا فاتح بن کر لوٹتا ہوں پھر بتاؤ! یہ ٹوپی اگر نہ ملتی تو مجھے چین کیسے آتا ؟
(حجۃ اللہ علی العالمین صــــ686)

سبق: حضور سرور عالم صلی اللہ علیہ وسلم ہی جملہ برکات و انعامات کا ذریعہ ہے اور آپ کا بال بال شریف برکت و رحمت ہے اور یہ بھی معلوم ہوا کہ صحابہ کرام علیہم الرضوان حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے متعلق اشیاء کو بطور تبرک اپنے پاس رکھتے تھے اور جس کے پاس آپ کا بال مبارک بھی ہوتا اللہ تعالیٰ اسے کامیابیوں سے سرفراز فرماتا تھا۔

تبصرے

Popular Posts

حکایت نمبر5 یمن ‏کا ‏بادشاہ

     کتاب المستظرف اور حجۃاللہ علے العالمین اور تاریخ ابن عساکر میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک ہزار سال پیشتر یمن کا بادشاہ تُبّع اول حمیری تھا، ایک مرتبہ وہ اپنی سلطنت کے دورہ کو نکلا، بارہ ہزار عالم اور حکیم اور ایک لاکھ بتیس ہزار سوار اور ایک لاکھ تیرہ ہزار پیادہ اپنے ہمراہ لئے اور اس شان سے نکلا کہ جہاں بھی پہنچتا اس کی شان و شوکتِ شاہی دیکھ کر مخلوق خدا چاروں طرف سے نظارہ کو جمع ہوجاتی، یہ بادشاہ جب دورہ کرتا ہوا مکہ معظمہ پہنچا تو اہل مکہ سے کوئی اسے دیکھنے نہ آیا، بادشاہ حیران ہوا اور اپنے وزیر اعظم سے اسکی وجہ پوچھیں تو اس نے بتایا کہ اس شہر میں ایک گھر ہے جسے بیت اللہ کہتے ہیں، اس کی اور اس کے خادموں کی جو یہاں کے باشندے ہیں تمام لوگ بے حد تعظیم کرتے ہیں اور جتنا آپ کا لشکر ہے اس سے کہیں زیادہ دور اور نزدیک کے لوگ اس گھر کی زیارت کو آتے ہیں اور یہاں کے باشندوں کی خدمت کرکے چلے جاتے ہیں،پھر آپ کا لشکر انکے خیال میں کیوں آئے، یہ سن کر بادشاہ کو غصہ آیا اور قسم کھاکر کہنے لگا کہ میں اس گھر کو کھدوادوں گا اور یہاں کے باشندوں کو قتل کروادوں گا ، یہ کہنا تھا...

حکایت نمبر 61 حضرت ابراہیم علیہ السلام اور چار پرندے

حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ایک روز سمندر کے کنارے ایک آدمی مرا ہوا دیکھا ۔آپ نے دیکھا کہ سمندر کی مچھلیاں اس کی لاش کھارہی ہیں ۔اور تھوڑی دیر کے بعد پھر پرندے آکر اس لاش کو کھانے لگے۔ پھر آپ نے دیکھا کہ جنگل کے کچھ درندے آئے اور وہ بھی اس لاش کو کھانے لگے۔آپ نے یہ منظر دیکھا تو آپ کو شوق ہوا کہ (آپ ملاحظہ فرمائیں ) کہ مردے کس طرح زندہ کئے جائے گے چنانچہ آپ نے خدا سے عرض کیا ۔ الٰہی! مجھے یقین ہے کہ تو مردوں کو زندہ فرمائے گا ۔ اور ان کے اجزاء دریائی جانوروں پرندوں اور درندوں کی پیٹوں سے جمع فرمائے گا لیکن میں یہ عجیب منظر دیکھنے کی آرزو رکھتا ہوں ۔خدا نے فرمایا اچھا اے خلیل ! تم چار پرندے لے کر انہیں اپنے ساتھ ملالو تاکہ اچھی طرح انکی شناخت ہو جائے پھر انہیں ذبح کرکے ان کے اجزاء باہم ملا جلا کر انکا ایک ایک حصہ ایک ایک پہاڑ پر رکھ دو اور پھر انکو بلاؤ اور دیکھو وہ کس طرح زندہ ہوکر تمہارے پاس دوڑتے ہوئے آتے ہیں۔                   چنانچہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے مور، کبوتر، مرغ اور کوا یہ چار پرندے لئے اور انہیں ذبح کیا ۔اور ان...

حکایت نمبر 60 حضرت عزیر علیہ السلام اور خدا کی قدرت کے کرشمے

بنی اسرائیل جب خدا کی نا فرمانی میں حد سے زیادہ بڑھ گئے تو خدا نے ان ہر ایک ظالم بادشاہ بخت نصر کو مسلط کردیا ، جس نے بنی اسرائیل کو قتل کیا، گرفتار کیا اور تباہ کیا ؛ اور بیت المقدس کو برباد و ویران کرڈالا ، حضرت عزیر علیہ السلام ایک دن شہر میں تشریف لائے تو آپ نے شہر کی ویرانی و بربادی کو  دیکھا تمام شہر میں پھرے کسی شخص کو وہاں نہ پایا شہر کی تمام عمارتوں کو منہدم دیکھا یہ منظر دیکھ کر آپ نے براہ تعجب فرمایا ۔  *اَنٌی یُحْیٖ ھٰذِہِ اللہُ بَعدَ مَوتِھا۔* یعنی اللہ اس شہر کو موت کے بعد اسے پھر کیسے ژندہ فرمائے گا ؟       آپ ایک دراز گوش پر سوار تھے اور آپ کے پاس ایک برتن کھجور اور ایک پیالہ انگور کے رس کا تھا . آپ نے اپنے دراز گوش کو ایک درخت سے باندھا اور اس درخت کے نیچے آپ سوگئے ۔جب سوگئے تو خدا نے اسی حالت میں آپ کی روح قبض کر لی اور گدھا بھی مرگیا اس واقعی کے ستر سال بعد اللہ تعالیٰ نے شاہان فارس میں سے ایک بادشاہ کو مسلط کردیا۔ اور وہ اپنی فوج لے کر بیت المقدس پہنچا۔ اور اس کو پہلے سے بھی  بہتر طریقے سے آباد کیا اور بنی اسرائیل میں سے جو...