نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

حضرت ‏جابر ‏کا ‏مکان ‏اور ‏ایک ‏ہزار ‏مہمان

     حضرت جابر رضی اللہ عنہ نے جنگ خندق کے دنوں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے شکم انور پر پتھر باندھا دیکھا تو گھر آکر اپنی بیوی سے کہا کہ کیا گھر میں کچھ ہے تاکہ ہم حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے کچھ پکائیں اور حضورکو کھلائیں؟ بیوی نے کہا، تھوڑے سے جَو ہیں اور ایک بکری کا چھوٹا بچہ ہے اسے ذبح کرلیتے ہیں آپ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو بلا لائیے مگر چونکہ وہاں لشکر بہت زیادہ ہے اس لئے حضور سے پوشیدگی میں کہئے گا کہ وہ اپنے ہمراہ دس آدمیوں سے کچھ کم ہی لائیں۔ جابر نے کہا، اچھا تو میں اس بکری کا بچہ ذبح کرتا ہوں تم اسے پکاؤ اور میں حضور کو بلاتا ہوں، چنانچہ جابر حضور کی خدمت میں پہنچے اور کان میں عرض کیا حضور میرے ہاں تشریف لے چلئے اور اپنے ساتھ دس آدمیوں سے کچھ کم آدمی کے چلئے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے سارے لشکر کو مخاطب فرما کر فرمایا چلو میرے ساتھ چلو جابر نے کھانا پکایا ہے اور پھر جابر کے گھر آکر حضور نے اس تھوڑے سے آٹے میں اپنا تھوک مبارک ڈال دیا اور اسی طرح ہنڈیا میں بھی اپنا تھوک مبارک ڈال دیا اور پھر حکم دیا کہ اب روٹیاں اور ہنڈیا پکاؤ، چنانچہ اس تھوڑے سے آٹے اور گوشت میں تھوک مبارک کی برکت سے اتنی برکت پیدا ہوئی کہ ایک ہزار آدمی کھانا کھا گیا مگر نہ کوئی روٹی کم ہوئی اور نہ کوئی بوٹی۔
(مشکوٰۃ شریف صـــ524)

سبق: یہ حضور کی تھوک مبارک کی برکت تھی کہ تھوڑے سے کھانے میں اتنی برکت پیدا ہوگئی کہ ہزار آدمی سیر شکم ہوکر کھا گیا لیکن کھانا بدستور ویسے کا ویسا ہی رہا اور کم نہ ہوا اور یہ حضور کی تھوک مبارک ہے اور جو ان کی مثل بشر بننے والے ہیں وہ اگر کبھی اپنے گھر کی ہنڈیاں میں بھی تھوکیں تو انکی بیوی ہی وہ ہنڈیا باہر پھینک دے گی اور کوئی کھانے کو تیار نہ ہوگا ، گویا انکے تھوکنے سے تھوڑے بہت کھانے سے بھی جواب

تبصرے

Popular Posts

حکایت نمبر5 یمن ‏کا ‏بادشاہ

     کتاب المستظرف اور حجۃاللہ علے العالمین اور تاریخ ابن عساکر میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک ہزار سال پیشتر یمن کا بادشاہ تُبّع اول حمیری تھا، ایک مرتبہ وہ اپنی سلطنت کے دورہ کو نکلا، بارہ ہزار عالم اور حکیم اور ایک لاکھ بتیس ہزار سوار اور ایک لاکھ تیرہ ہزار پیادہ اپنے ہمراہ لئے اور اس شان سے نکلا کہ جہاں بھی پہنچتا اس کی شان و شوکتِ شاہی دیکھ کر مخلوق خدا چاروں طرف سے نظارہ کو جمع ہوجاتی، یہ بادشاہ جب دورہ کرتا ہوا مکہ معظمہ پہنچا تو اہل مکہ سے کوئی اسے دیکھنے نہ آیا، بادشاہ حیران ہوا اور اپنے وزیر اعظم سے اسکی وجہ پوچھیں تو اس نے بتایا کہ اس شہر میں ایک گھر ہے جسے بیت اللہ کہتے ہیں، اس کی اور اس کے خادموں کی جو یہاں کے باشندے ہیں تمام لوگ بے حد تعظیم کرتے ہیں اور جتنا آپ کا لشکر ہے اس سے کہیں زیادہ دور اور نزدیک کے لوگ اس گھر کی زیارت کو آتے ہیں اور یہاں کے باشندوں کی خدمت کرکے چلے جاتے ہیں،پھر آپ کا لشکر انکے خیال میں کیوں آئے، یہ سن کر بادشاہ کو غصہ آیا اور قسم کھاکر کہنے لگا کہ میں اس گھر کو کھدوادوں گا اور یہاں کے باشندوں کو قتل کروادوں گا ، یہ کہنا تھا...

حکایت نمبر 61 حضرت ابراہیم علیہ السلام اور چار پرندے

حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ایک روز سمندر کے کنارے ایک آدمی مرا ہوا دیکھا ۔آپ نے دیکھا کہ سمندر کی مچھلیاں اس کی لاش کھارہی ہیں ۔اور تھوڑی دیر کے بعد پھر پرندے آکر اس لاش کو کھانے لگے۔ پھر آپ نے دیکھا کہ جنگل کے کچھ درندے آئے اور وہ بھی اس لاش کو کھانے لگے۔آپ نے یہ منظر دیکھا تو آپ کو شوق ہوا کہ (آپ ملاحظہ فرمائیں ) کہ مردے کس طرح زندہ کئے جائے گے چنانچہ آپ نے خدا سے عرض کیا ۔ الٰہی! مجھے یقین ہے کہ تو مردوں کو زندہ فرمائے گا ۔ اور ان کے اجزاء دریائی جانوروں پرندوں اور درندوں کی پیٹوں سے جمع فرمائے گا لیکن میں یہ عجیب منظر دیکھنے کی آرزو رکھتا ہوں ۔خدا نے فرمایا اچھا اے خلیل ! تم چار پرندے لے کر انہیں اپنے ساتھ ملالو تاکہ اچھی طرح انکی شناخت ہو جائے پھر انہیں ذبح کرکے ان کے اجزاء باہم ملا جلا کر انکا ایک ایک حصہ ایک ایک پہاڑ پر رکھ دو اور پھر انکو بلاؤ اور دیکھو وہ کس طرح زندہ ہوکر تمہارے پاس دوڑتے ہوئے آتے ہیں۔                   چنانچہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے مور، کبوتر، مرغ اور کوا یہ چار پرندے لئے اور انہیں ذبح کیا ۔اور ان...

حکایت نمبر 60 حضرت عزیر علیہ السلام اور خدا کی قدرت کے کرشمے

بنی اسرائیل جب خدا کی نا فرمانی میں حد سے زیادہ بڑھ گئے تو خدا نے ان ہر ایک ظالم بادشاہ بخت نصر کو مسلط کردیا ، جس نے بنی اسرائیل کو قتل کیا، گرفتار کیا اور تباہ کیا ؛ اور بیت المقدس کو برباد و ویران کرڈالا ، حضرت عزیر علیہ السلام ایک دن شہر میں تشریف لائے تو آپ نے شہر کی ویرانی و بربادی کو  دیکھا تمام شہر میں پھرے کسی شخص کو وہاں نہ پایا شہر کی تمام عمارتوں کو منہدم دیکھا یہ منظر دیکھ کر آپ نے براہ تعجب فرمایا ۔  *اَنٌی یُحْیٖ ھٰذِہِ اللہُ بَعدَ مَوتِھا۔* یعنی اللہ اس شہر کو موت کے بعد اسے پھر کیسے ژندہ فرمائے گا ؟       آپ ایک دراز گوش پر سوار تھے اور آپ کے پاس ایک برتن کھجور اور ایک پیالہ انگور کے رس کا تھا . آپ نے اپنے دراز گوش کو ایک درخت سے باندھا اور اس درخت کے نیچے آپ سوگئے ۔جب سوگئے تو خدا نے اسی حالت میں آپ کی روح قبض کر لی اور گدھا بھی مرگیا اس واقعی کے ستر سال بعد اللہ تعالیٰ نے شاہان فارس میں سے ایک بادشاہ کو مسلط کردیا۔ اور وہ اپنی فوج لے کر بیت المقدس پہنچا۔ اور اس کو پہلے سے بھی  بہتر طریقے سے آباد کیا اور بنی اسرائیل میں سے جو...