- ہمارے امام حضرت امام اعظم رضہ اللہ تعالیٰ عنہ کا ایک دہریہ ، خدا کی ہستی کے منکر سے مناظرہ مقرر ہوا اور موضوع مناظرہ یہی مسئلہ تھا کہ عالم کا کوئی خالق ہے یا نہیں؟ اس اہم مسئلہ پر مناظرہ اور پھر اتنے بڑے امام سے، چنانچہ میدان مناظرہ میں دوست دشمن سبھی جمع ہوگئے مگر حضرت امام اعظم وقت مقررہ اسے بہت دیر کے بعد مجلس میں تشریف لائے ۔ دہریہ نے پوچھا کہ آپ نے اتنی دیر کیوں لگائی؟ آپ نے فرمایا کہ اگر میں اس کا جواب یہ دوں کہ میں ایک جنگل کی طرف نکل گیا تھا وہاں ایک عجیب واقعہ نظر آیا جس کو دیکھ کر میں حیرت میں آکر وہیں کھڑا ہوگیا اور وہ واقعہ یہ تھا کہ دریا کنارے ایک درخت تھا، دیکھتے ہی دیکھتے وہ درخت خود بخود کٹ کر زمین پر گر پڑا پھر خود بخود اس کے تختے تیار ہوئے پھر ان تختوں کی خود بخود ایک کشتی تیار ہوئی اور خود بخود ہی دریا میں چل گئی اور پھر خود بخود ہی وہ دریا کے اس طرف کر مسافروں کو اس طرف اور اس طرف کے مسافروں کو اس طرف لانے اور لے جانے لگی، پھر ہر ایک سواری سے خود ہی کرایہ وصول کرتی تھی،
تو بتاؤ تم میری اس بات پر یقین کرلو گے ؟
دہریہ نے یہ سن کر ایک قہقہہ لگایا اور کہا، آپ جیسا بزرگ اور امام ایسا جھوٹ بولے تو تعجب ہے ،بھلا یہ کام کہیں خود بخود ہوسکتے ہیں؟ جب تک کوئی کرنے والا نہ ہو کسی طرح نہیں ہوسکتے ۔
حضرت امام اعظم نے فرمایا کہ یہ تو کچھ بھی کام نہیں ہیں تمھارے نزدیک تو اس سے بھی زیادہ بڑے بڑے عالیشان کام خود بخود بغیر کسی کرنے والے کے تیار ہوتے ہیں، یہ زمین،یہ آسمان، یہ چاند، یہ سورج، یہ ستارے، یہ باغات، یہ صدہا قسم کے رنگین پھول اور شیریں پھل یہ پہاڑ، یہ چوپائے، یہ انسان اور یہ ساری خدائی بغیر بنانے والے کے تیار ہوگئی ہے، اگر ایک کشتی کا بغیر کسی بنانے والے کے خود بخود بن جانا جھوٹ ہے تو سارے جہان کا بغیر بنانے والے کے بن جانا اس سے بھی بڑا جھوٹ ہے۔ دہریہ آپ کی تقریر سن کر دن بخود حیرت میں آگیا اور فوراً اپنے عقیدہ سے تائب ہوکر مسلمان ہوگیا
(تفسیر کبیر ص221 جلد 1)
سبق: اس کائنات کا یقینا ایک خالق ہے جس کا نام اللہ ہے اور وجود باری کا انکار عقل کے بھی خلاف ہے ۔
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں
اسلامی واقعات پڑھنے کا بہت شکریہ