نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

اشاعتیں

جون, 2020 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

حکایت نمبر ۵۹ طوفان نوح اور ایک بڑھیا

حضرت نوح علیہ السلام  نے حکم الہی جب کشتی بنانا  شروع کی تو ایک مومنہ بڑھیا نے حضرت نوح سے پوچھا ، کہ آپ یہ کشتی کیوں بنارہے ہیں ، آپ نے فرما یا ، بڑی بی ! ایک بہت بڑا پانی کا طوفان آنے والا ہے جس میں سب کافر ہلاک ہوجائے گے ، اور مومن کشتی کے ذریعے بچ جائیں گے، بڑھیا نے عرض کیا، حضور!  جب طوفان  آنے والا ہوتو مجھے خبر کر دیجئے گا ، تاکہ میں بھی کشتی پر سوار ہوجاؤں ، بڑھیا کی جھونپڑی شہر سے باہر کچھ فاصلہ پر تھی ، پھر جب طوفان کا وقت آیا ، تو حضرت نوح علیہ السلام دوسرے لوگوں کو تو کشتی پر چڑھانے میں مشغول ہوگئے ، مگر اس بڑھیا کا خیال نہ رہا حتے  کہ خدا کا ہولناک عذاب پانی کی شکل میں آیا ، اور روئے زمین کے سب کافر ہلاک ہوگئے ، اور جب یہ عذاب تھم گیا اور پانی اتر گیا اور کشتی والے کشتی سے اترے تو وہ بڑھیا حضرت نوح علیہ السلام  کے پاس حاضر ہوئی اور کہنے لگی،     حضرت وہ پانی کا طوفان کب آئے گا ؟  میں ہر روز اس انتظار میں ہوں کہ آپ کب کشتی میں سوار ہونے کے لئے فرماتے ہیں ، حضرت نے فرمایا بڑی بی! طوفان تو آ بھی چکا، اور کافر سب ہلاک...

حکایت نمبر 58 نوح علیہ السلام کی کشتی

۔حکایت نمبر 58 نوح علیہ السلام کی کشتی     حضرت نوح علیہ السلام کی قوم بڑی بدبخت اور نا عاقبت اندیشی تھی ، حضرت نوح علیہ السلام نے ساڑھے نو سو سال کے عرصہ میں دن رات تبلیغ حق فرمائی ، مگر وہ نہ مانے ، آخر نوح علیہ السلام نے ان کہ ہلاکت کی دعا مانگی ، اور خدا سے عرض کی کہ مولا! ان کافروں کو بیچ و بن سے اکھاڑ دے چنانچہ آپ کی دعا قبول ہوگئی ، اور خدا نے حکم دیا کہ :  *اے نوح! میں پانی کا ایک طوفان عظیم لاؤں گا، اور ان سب کافروں کو ہلاک کردوں گا، تو اپنے اور چند ماننے والوں کے لئے ایک کشتی بنالے،*      چنانچہ حضرت نوح علیہ السلام نے ایک جنگل میں کشتی بنانا شروع فرمائی ، کافر آپ کو دیکھتے اور کہتے، اے نوح! کیا کرتے ہو، آپ فرماتے ایسا مکان بناتا ہوں، جو پانی پر چلے، کافر یہ سن کر ہنستے، اور تمسخر کرتے تھے ، حضرت نوح علیہ السلام فرماتے، کہ آج تم ہنستے ہو اور ایک دن ہم تم پر ہنسیں گے ، حضرت نوح علیہ السلام نے یہ کشتی دوسال میں تیار کی ، اس کی لمبائی تین سو گز ، چوڑائی پچاس گز، اور اونچائی تیس گز تھی ، اس کشتی میں تین درجے بنائے گئے تھے، نیچے کے در...

حکایت نمبر 57 حضرت آدم علیہ السلام اور جنگلی ہرن

حضرت آدم علیہ السلام اور جنگلی ہرن      حضرت آدم علیہ السلام جب جنت سے زمین پر تشریف لائے تو زمین کے جانور آپ کی زیارت کو حاضر ہونے لگے، حضرت آدم علیہ السلام ہر جانور کے لئے اس کے لائق دعا فرماتے، اسی طرح جنگل کے کچھ ہرن بھی سلام کرنے اور زیارت کرنے کی نیت سے حاضر ہوئے، آپ نے اپنا ہاتھ مبارک ان کی پشتوں پر پھیرا اور ان کے لئے دعا فرمائی، تو ان میں نافۂ مشک پیدا ہوگئی، ہرن جب یہ خوشبو کا تحفہ لے کر اپنی قوم میں واپس آئے، تو ہرنوں کے دوسرے گروہ نے پوچھا، کہ یہ خوشبو تم کہاں سے لے آئے ؟ وہ بولے اللہ کا پیغمبر آدم علیہ السلام جنت سے زمین پر تشریف لایا ہے، ہم ان کی زیارت کے لئے حاضر ہوئے تھے، تو انہوں نے رحمت بھرا اپنا ہاتھ ہماری پشتوں پر پھیرا تو یہ خوشبو پیدا ہوگئی، ہرنوں کا وہ دوسرا گروہ بولا تو پھر ہم بھی جاتے ہیں، چنانچہ وہ بھی گئے حضرت آدم علیہ السلام نے ان کی پشتوں پر بھی ہاتھ پھیرا ، مگر ان میں وہ خوشبو پیدا نہ ہوئی، اور وہ جیسے گئے تھے ویسے کہ ویسے واپس آگئے ، واپس آکر وہ متعجب ہوکر بولے کہ یہ کیا بات ہے؟ تم گئے تو خوشبو مل گئی، اور ہم گئے تو کچھ نہ ملا، پہل...

حکایت نمبر 56 شیطان کا تھوک

خدا نے جب حضرت آدم علیہ السلام کا پتلا مبارک تیار فرمایا تو فرشتے حضرت آدم علیہ السلام کے اس پتلے مبارک کی زیارت کرتے تھے ۔مگر شیطان لعین حسد کی آگ میں جل بھن گیا۔ اور ایک مرتبہ اس مردود نے بغض و کینہ میں آکر حضرت آدم علیہ السلام کے پتلے مبارک پر تھوک دیا یہ تھوک حضرت آدم علیہ السلام کی ناف مبارک کے مقام پر پڑی ۔ خداتعالی نے حضرت جبریل علیہ السلام کو حکم دیا کہ اس جگہ سے اتنی مٹی نکال کر اس مٹی کا کتا بنادو ۔     چنانچہ اس شیطانی تھوک سے ملی ہوئی مٹی کا کتا بنادیا گیا۔ یہ کتا آدمی سے مانوس اس لئے ہے، کہ مٹی حضرت آدم علیہ السلام کی ہے ، اور پلید اس لئے ہے کہ تھوک شیطان کا ہے ، اور رات کو جاگتا اس لئے ہے کہ ہاتھ اسے جبریل کے لگے ہیں.  (1روح البیان صــ68 جلد )  *ســبق*: شیطان کے تھوکنے سے حضرت آدم علیہ السلام کا کچھ نہیں بگڑا ، بلکہ مقام ناف شکم کے لئے وجہ زینت بن گیا۔ اسی طرح اللہ والوں کی بارگاہ میں گستاخی کرنے سے ان اللہ والوں کا کچھ نہیں بگڑتا ، بلکہ ان کی شان اور چمکتی ہے، اور یہ بھی معلوم ہوا کہ اللہ والوں کو حسد و نفرت کی نگاہ سے دیکھنا شیطانی کام...

حکایت نمبر 55 حضرت آدم علیہ السلام اور شیطان

خداوند کریم نے جب فرشتوں میں اعلان فرمایا کہ میں زمین میں اپنا ایک خلیفہ بنانے والا ہوں۔ تو شیطان لعین نے اس بات کا بہت برا منایا اور اپنے جی ہی جی میں حسد کی آگ میں جلنے لگا ۔            چنانچہ جب خدا نے حضرت آدم علیہ السلام کو پیدا فرما کر فرشتوں کو حکم دیا کہ میرے خلیفہ کے آگے سجدہ میں جھک جاؤ ۔تو سب سجدہ میں جھک گئے مگر شیطان لعین اکڑا رہا اور نہ جھکا ، خداوند کریم کو اس کا یہ تکبر پسند نہ آیا۔ اور اس سے دریافت فرمایا کہ اے ابلیس! میں نے جب اپنے یہ قدرت سے بنائے ہوئے خلیفہ کے آگے سجدہ کا حکم دیا تو تم نے کیوں نہ سجدہ کیا ، شیطان نے جواب دیا۔ میں آدم سے اچھا ہوں ، اس لئے کہ میں آگ سے بنا ہوا ہوں اور وہ مٹی سے بنا ہے ، پھر میں ایک بشر کو سجدہ کیوں کرتا؟     خداتعالی نے اس کا رعونت بھرا جواب سنا تو فرمایا   مردود نکل جا میری بارگاہ رحمت سے ۔ جا تو قیامت تک کےلئے مردود و ملعون ہے  *(قرآن کریم سورۂ بقر)*  *ســـبق*: خدا کے رسول اور ا س کے مقبولوں کی عزت و تعظیم کرنے سے خدا خوش ہوتا ہے۔ اور ان کو اپنی مثل بشر...

ایک مشاعرہ

ایک مجلس مشاعرہ میں ایک عیسائی  شاعر نے حسب ذیل شعر کہے۔۔۔ !محمد تو زمیں میں بے گماں ہے فلک پر ابن مریم کا مکاں ہے جو اونچا ہے وہی افضل رہے گا جو نیچے ہے بھلا افضل کہاں ہے؟ ایک مسلمان شاعر نے اس کے جواب میں یہ شعر کہا۔۔۔ !ترازو کو اٹھا کر دیکھ ناداں  وہی جھکتا ہے جو پلک گراں ہے

حکایت ‏نمبر ‏54 ‏ ‏ ‏ایک ‏ولی اور ‏محدث

ایک ولی ایک محدث کے درسِ حدیث میں حاضر ہوئے تو اس محدث نے ایک حدیث پڑھی اور کہا قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یوں فرمایا تو وہ ولی بولے، یہ حدیث باطل ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ نے ہر گز یوں نہیں فرمایا، وہ محدث بولے کہ تم ایسا کیوں کہہ رہے ہو؟ اور تمہیں کیسے پتہ چلا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا نہیں فرمایا؟ تو اس ولی نے جواب دیا.... ھٰذا النَّبیُّ صَلّی اللّهُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَاقِفٌ عَلٰی رَاسِکَ یَقُوْلُ اِنِّی لَم٘ اقُلْ ھٰذا الْحَدِیثِ۔  "یہ دیکھو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تمہارے سر پر کھڑے ہیں اور فرمارہے ہیں میں نے ہرگز یہ حدیث نہیں کہی"     وہ محدث حیران رہ گئے اور ولی بولے، کیا تم بھی حضور اکرم کو دیکھنا چاہتے ہوتو لو دیکھ لو، چنانچہ جب ان محدث نے اوپر دیکھا تو حضور کو تشریف فرما دیکھ لیا۔ (فتاوٰے حدیثیہ ص 212) ســـبق : ہمارے حضور حاضر و ناظر ہیں مگر دیکھنے کے لئے کسی ولی کی نظر درکار ہے اور کسی کامل ولی کی نظر کرم ہو جائے تو آج بھی سرکار بھی سرکار ابدقرار کے دیدار پر انوار کا شرف حاصل ہوسکتا ۔

حکایت ‏نمبر53 ‏ ‏ ‏ابوالحسن ‏خرقانی ‏اور ‏حدیث ‏کا ‏درس ‏

حضرت ابوالحسن خرقانی علیہ الرحمۃ کے پاس ایک شخص علم حدیث پڑھنے کے لئے آیا اور دریافت کیا کہ آپ نے حدیث کہاں سے پڑھی؟ حضرت نے فرمایا، براہ راست حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے، اس شخص کو یقین نہ آیا، رات کو سویا تو حضور خواب میں تشریف لائے اور فرمایا ابوالحسن سچ کہتا ہے میں نے ہی اس پڑھایا ہے، صبح کو حضرت ابوالحسن کی خدمت میں وہ حاضر ہوا اور حدیث پڑھنے لگا ۔بعض مقامات پر حضرت ابوالحسن نے فرمایا یہ حدیث آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی نہیں ، اس شخص نے پوچھا کہ آپ کو کیسے معلوم ہوا، فرمایا تم نے حدیث پڑھنا شروع کی تو میں نے حضور صلی اللہ عل یہ وسلم کے ابروئے مبارک کو دیکھنا شروع کیا میری یہ آنکھیں حضور کے ابروئے مبارک پر ہیں جب حضور کے ابروئے مبارک پر شکن پڑتی ہے تو میں سمجھ جاتا ہوں کہ حضور اس حدیث سے انکار فرمارہے ہیں۔ (تذکرۃ الاولیاء ص496) ســـبق : ہمارے حضور صلی اللہ علیہ وسلم زندہ ہیں اور حاضر و ناظر اور یہ بھی معلوم ہوا کہ اللہ والے حضور کے دیدار پر انوار سے اب بھی مشرف ہوتے ہیں پھر جو حضور کو زندہ نہ مانے وہ خود ہی مردہ ہے ۔

‎حکایت ‏نمبر ‏52 ‏ ‏ ‏عبداللہ ‏بن ‏مبارک ‏اور ‏سید ‏زادہ

حضرت عبداللہ بن مبارک رحمۃ اللہ علیہ ایک بڑے مجمع کے ساتھ مسجد سے نکلے تو ایک سید زادہ نے ان سے کہا۔      اے عبد اللہ! یہ کیسا مجمع ہے؟ دیکھ میں فرزند رسول ہوں اور تیرا باپ تو ایسا نہ تھا، حضرت عبداللہ بن مبارک نے جواب دیا ، میں وہ کام کرتا ہوں جو تمہارے نانا جان نے کیا تھا اور تم نہیں کرتے اور یہ بھی کہا کہ بے شک تم سید ہو اور تمہارے والد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں اور میرا والد ایسا نہ تھا مگر تمہارے والد سے علم کی میراث باقی رہی، میں نے تمہارے والد کی میراث لی میں عزیز اور بزرگ ہوگیا تم نے میرے والد کی میراث لی تم عزت نہ پاسکے ۔      اسی رات خواب میں حضرت عبداللہ بن مبارک نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ چہرۂ مبارک آپ کا متغیر ہے، عرض کیا یارسول اللہ! یہ رنجش کیوں ہے؟ فرمایا! تم نے میرے ایک بیٹے پر نکتہ چینی کی ہے عبداللہ بن مبارک جاگے اور اس سید زادہ کی تلاش میں نکلے تاکہ اس سے معافی طلب کریں، ادھر اس سید زادہ نے بھی اسی رات خواب میں حضور اکرم کو دیکھا اور حضور نے اس سے یہ فرمایا کہ بیٹا اگر اچھا ہوتا تو وہ تمہیں کیوں ایس...

حکومت ‏نمبر51 ‏ ‏ ‏ایک ‏سیدزادی ‏اور ‏مجوسی ‏

ملک سمرقند میں ایک سید زادی رہتی تھی اس کے چند بچے بھی تھے، ایک دن وہ اپنے بھوکے بچوں کو لے کر ایک رئیس آدمی کے یہاں پہونچی اور کہا میں سید زادی ہوں میرے بچے بھوکے ہیں انہیں کھانا کھلاؤ، وہ رئیس آدمی جو دولت کے نشہ میں مخمور اور برائے نام مسلمان تھا کہنے لگا تم اگر واقعی سیدزادی ہوتو کوئی دلیل پیش کرو، سید زادی بولی میں ایک غریب بیوہ ہوں زبان پر اعتبار کرو کہ سید زادی ہوں اور دلیل کیا پیش کروں؟ وہ بولا میں زبانی جمع خرچ کا معتقد نہیں اگر کوئی دلیل ہے تو پیش کرو ورنہ جاؤ، وہ سید زادی اپنے بچوں کو لیکر واپس چلی آئی اور ایک مجوسی رئیس کے پاس پہنچی اور اپنا قصہ بیان کیا وہ مجوسی بولا، محترمہ ! اگر چہ میں مسلمان نہیں ہوں مگر تمہاری سیادت کی تعظیم و قدر کرتا ہوں آؤ اور میرے ہاں ہی قیام فرماؤ میں تمہاری روٹی اور کپڑے کا ضامن ہوں، یہ کہا اور اسے اپنے یہاں ٹھہرا کر اسے اور اس کے بچوں کو کھانا کھلایا اور ان کی بڑی خدمت کی ، رات ہوئی تو وہ برائے نام مسلمان رئیس سویا تو اس نے خواب میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا جو ایک بہت بڑے نورانی محل کے پاس تشریف فرما تھے، اس رئیس نے پوچھا یارسول اللہ! ...

حکایت ‏نمبر50 ‏ ‏ ‏پھنسا ‏ہوا ‏جہاز

ایک مرد صالح کو ایک کافر بادشاہ نے گرفتار کرلیا وہ فرما تے ہیں اس بادشاہ کا ایک بہت بڑا جہاز دریا میں پھنس گیا تھا جو بڑی کوشش کے باوجود دریا سے نکل نہ سکا آخر ایک دن جس قدر قیدی تھے ان کو بلایا گیا کہ وہ سب مل کر اس جہاز کو نکالیں چنانچہ ان قیدیوں نے جن کی تعداد تین ہزار تھی مل کر کوشش کی مگر پھر بھی وہ جہاز نکل نہ سکا پھر ان قیدیوں نے بادشاہ سے کہا کہ جس قدر مسلمان قیدی ہیں ان کو کہئیے وہ یہ جہاز نکال سکیں گے لیکن شرط یہ ہے کہ وہ جو بھی نعرہ لگائیں انہیں روکا نہ جائے، بادشاہ نے یہ بات تسلیم کرلی اور سب مسلمان قیدیوں کو رہا کرکے کہا تم اپنی مرضی کے مطابق جو نعرہ لگانا چاہوں لگاؤ اور اس جہاز کو نکالو ۔ وہ مرد صالح فرماتے ہیں کہ ہم مسلمان قیدیوں کی تعداد چارسو-400 تھی ہم نے مل کر نعرۂ رسالت لگایا اور ایک آواز سے "یا رسول اللہ" کہا اور جہاز کو ایک دھکا لگایا تو وہ جہاز اپنی جگہ سے ہل گیا پھر ہم نے یہ نعرہ لگاتے ہوئے اسے رکنے نہیں دیا حتٰی کے اسے باہر نکال دیا ۔ (شواہدالحق للبنہانی ص 163) سبق: نعرۂ رسالت مسلمانوں کا محبوب نعرہ ہے اور مسلمانوں نے اس ہمیشہ اپنائے رکھا اور ا...

حکایت ‏نمبر49 ‏ ‏ ‏جزیرے ‏کا ‏قیدی

       ابن مرزوق بیان کرتے ہیں کہ جزیرۂ شقر کے ایک مسلمان کو دشمنوں نے قید کرلیا اور اس کے ہاتھ پاؤں لوہے کی زنجیروں سے باندھ کر قید خانے میں ڈال دیا اس مسلمان نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا نام لے کر فریاد کی اور زور سے کہنے لگا " یارسول اللہ" یہ نعرہ سن کر کافر بولے اپنے رسول سے کہو تمہیں اس قید سے چھڑانے آئے پھر جب رات ہوئی اور آدھی رات کا وقت ہوا تو قید خانے میں کوئی شخص آیا اور اس نے قیدی سے کہا اٹھو! "اذان کہو" قیدی نے اذان دینا شروع کی اور جب وہ اس جگہ پر پہنچا ، اَشھَدُ اَنَّ مُحَمَّدً ارَّسّولُ اللّہ تو اس کی سب زنجیریں ٹوٹ گئیں اور وہ آزاد ہوگیا پھر اس کے سامنے ایک باغ ظاہر ہوگیا اور وہ اس باغ سے ہوتا ہوا باہر آگیا ، صبح اس کی رہائی کا سارے جزیرہ میں چرچا ہونے لگا۔ ( شواہدالحق صـــ162) ســـبق: مسلمان حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا نعرۂرسالت ہمیشہ لگاتے رہے اور اس نعرہ کا مذاق اڑانا دشمنانِ رسالت کا کام ہے اور یہ بھی معلوم ہوا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا نام نامی مشکل کشا ہے کہ یہ نام لیتے ہی مصیبت کی کڑیاں ٹوٹ جاتی ہیں۔

حکایت ‏نمبر48 ‏ ‏ ‏قاتل ‏کی ‏رہائی

    بغداد کے حاکم ابراہیم بن اسحاق نے ایک رات خواب میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا اور حضور نے اس سے فرمایا "قاتل کو رہا کردو" یہ حکم سن کر حاکم بغداد کانپتا ہوا اٹھا اور ما تحت عملہ سے پوچھا کہ کیا کوئی ایسا مجرم بھی ہے جو قاتل ہو؟ انہوں نے بتایا کہ ہاں ایک ایسا شخص بھی ہے جس پر الزام قتل ہے حاکم بغداد نے کہا اسے میرے سامنے لاؤ، چنانچہ اسے لایا گیا۔ حاکم بغداد نے پوچھا کہ سچ سچ بتاؤ واقعہ کیا ہے؟ اس نے کہا سچ کہوں گا جھوٹ ہرگز نہ بولوں گا، بات یہ ہوئی کہ ہم چند آدمی مل کر عیاشی و بدمعاشی کیا کرتے تھے ایک بوڑھی عورت کو ہم نے مقرر کر رکھا تھا جو ہر رات کسی بہانے سے کوئی نہ کوئی عورت لے آتی تھی ایک رات وہ ایک ایسی عورت کو لائی جس نے میری دنیا میں انقلاب برپا کردیا، بات یہ ہوئی کہ وہ نو وارد عورت جب ہمارے سامنے آئی تو چیخ مارکر اور بیہوش ہوکر گر گئی میں نے اسے اٹھا کر ایک دوسرے کمرے میں لاکر اسے ہوش میں لانے کی کوشش کی اور جب وہ ہوش میں آگئی تو اس سے چیخنے اور بے ہوش ہونے کی وجہ پوچھی، وہ بولی اے نوجوان! میرے حق میں اللہ سے ڈر پھر کہتی ہوں کہ اللہ سے ڈر! یہ بڑھیا تو ...