حضرت عبداللہ بن مبارک رحمۃ اللہ علیہ ایک بڑے مجمع کے ساتھ مسجد سے نکلے تو ایک سید زادہ نے ان سے کہا۔
اے عبد اللہ! یہ کیسا مجمع ہے؟ دیکھ میں فرزند رسول ہوں اور تیرا باپ تو ایسا نہ تھا، حضرت عبداللہ بن مبارک نے جواب دیا ، میں وہ کام کرتا ہوں جو تمہارے نانا جان نے کیا تھا اور تم نہیں کرتے اور یہ بھی کہا کہ بے شک تم سید ہو اور تمہارے والد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں اور میرا والد ایسا نہ تھا مگر تمہارے والد سے علم کی میراث باقی رہی، میں نے تمہارے والد کی میراث لی میں عزیز اور بزرگ ہوگیا تم نے میرے والد کی میراث لی تم عزت نہ پاسکے ۔
اسی رات خواب میں حضرت عبداللہ بن مبارک نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ چہرۂ مبارک آپ کا متغیر ہے، عرض کیا یارسول اللہ! یہ رنجش کیوں ہے؟ فرمایا! تم نے میرے ایک بیٹے پر نکتہ چینی کی ہے عبداللہ بن مبارک جاگے اور اس سید زادہ کی تلاش میں نکلے تاکہ اس سے معافی طلب کریں، ادھر اس سید زادہ نے بھی اسی رات خواب میں حضور اکرم کو دیکھا اور حضور نے اس سے یہ فرمایا کہ بیٹا اگر اچھا ہوتا تو وہ تمہیں کیوں ایسا کلمہ کہتا وہ سید زادہ بھی جاگا اور حضرت عبداللہ بن مبارک کی تلاش میں نکلا چنانچہ دونوں کی ملاقات ہوگئی اور دونوں نے اپنے اپنے خواب سناکر ایک دوسرے سے معذرت طلب کرلی۔
(تذکرۃ الاولیاء صفحہ173)
ســـبق : ہمارے حضور صلی اللہ علیہ وسلم امت کی ہر بات پر شاہد اور ہر بات سے باخبر ہیں اور یہ بھی معلوم ہوا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے نسبت رکھنے والی کسی چیز پر نکتہ چینی کرنا حضور کی خفگی کا موجب ہے۔
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں
اسلامی واقعات پڑھنے کا بہت شکریہ