نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

حکایت نمبر 62 تیشۂ خلیل

حضرت ابراہیم علیہ السلام جب پیدا ہوئے تو نمرود کا دور تھا اور بت پرستی کا بڑا زور تھا ۔حضرت ابراہیم علیہ السلام ایک دن ان بت پرستوں سے فرمانے لگے کہ یہ تمہاری کیا حرکت ہے کہ ان مورتیوں کے آگے جھکے رہتے ہو۔ یہ تو پرستش کے لائق نہیں پرستش کے لائق تو صرف ایک اللہ ہے ۔
   وہ لوگ بولے ہمارے باپ دادا بھی انہیں مورتیوں کو پوجا کرتے چلے آئے ہیں مگر آج تم ایک ایسے آدمی پیدا ہوگئے ہو جو انکی پوجا سے روکنے لگے ہو۔
    آپ نے فرمایا ! تم اور تمہارے باپ دادا سب گمراہ ہیں۔ حق بات یہی ہے جو میں کہتا ہوں کہ تمہارا اور زمین و آسمان سب کا رب وہ ہے جس نے ان سب کو پیدا فرمایا اور سن لو! میں خدا کی قسم کھاکر کہتا ہوں کہ تمہارے ان بتوں کو میں سمجھ لوں گا
۔
     چنانچہ ایک دن جب کہ بت پرست اپنے سالانہ میلہ پر جنگل میں گئے ہوئے تھے ۔حضرت ابراہیم علیہ السلام ان کے بت خانے میں تشریف لے گئے ۔اور اپنے تیشہ سے سارے بت توڑ ڈالے پھوڑ ڈالے اور جو بڑا بت تھا ۔اسے نہ توڑا اور اپنا تیشہ اس کے کندھے پر رکھ دیا اس خیال سے کہ بت پرست جب یہاں آئے تو اپنے بتوں کا حال دیکھ کر شاید اس بڑے بت سے پوچھیں۔ کہ ان چھوٹے بتوں کو یہ کون توڑ گیا؟ اور یہ تیشہ تیرے کندھے پر کیوں رکھا ہے ؟ اور انہیں اس کا عجز ظاہر ہو اور ہوش میں آئیں کہ ایسے عاجز خدا نہیں ہوسکتے ۔
     چنانچہ جب وہ لوگ میلہ سے واپس آئے اور اپنے بت خانہ میں پہنچے تو اپنے معبودوں کا یہ حال دیکھ کر کہ کوئی ادھر ٹوٹا ہوا پڑا ہے کسی کا ہاتھ نہیں تو کسی کی ناک سلامت نہیں۔ کسی کی گردن نہیں تو کسی کی ٹانگیں ہی غائب ہیں۔ بڑے حیران ہوئے اور بولے ۔کہ کس ظالم نے ہمارے معبودوں کا یہ حشر کیا ہے؟
      پھر یہ خبر نمرود  اور اس کے امراء کو پہنچی ۔اور سرکاری طور پر اس کی تحقیق ہونے لگی تو لوگوں نے بتایا کہ ابراہیم ان بتوں کے خلاف بہت کچھ کہتے رہتے ہیں یہ انہیں کا کام معلوم ہوتا ہے ۔چنانچہ حضرت ابراہیم کو بلایا گیا اور آپ سے پوچھا گیا ۔کہ اے ابراہیم! کیا تونے ہمارے خداؤں کے ساتھ یہ کام کیا آپ نے فرمایا ۔وہ بڑا بت جس کے کندھے پر تیشہ ہے اس صورت حال میں تو قیاس کیا جاسکتا ہے کہ یہ اسی کا کام ہے تو پھر مجھ سے کیا پوچھتے ہو اسی سے پوچھ لونا ! کہ یہ کام کس نے کیا ۔ وہ بولے مگر وہ تو بول نہیں سکتے تو پھر تف ہے تم بے عقلوں پر اور ان بتوں پر جن کو تم اللہ کے سوا پوجتے ہو

 *(قرآن پ 13 ع5)*

 *سبـــق* : خدا کو چھوڑ کر بتوں کو پوجنا شرک ہے اور قرآن میں جہان *مِن دُونِ اللّہِ* "یعنی اللہ کے سوا "  کا لفظ آیا ہے ۔وہاں یہی بت مراد ہیں نہ کی انبیاء و اولیاء اس لئے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام ان پر "تف" فرما رہے ہیں تو اگر ان سے مراد انبیاء و اولیاء ہوں تو حضرت ابراہیم علیہ السلام ایسا کیوں فرماتے

تبصرے

Popular Posts

حکایت نمبر5 یمن ‏کا ‏بادشاہ

     کتاب المستظرف اور حجۃاللہ علے العالمین اور تاریخ ابن عساکر میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک ہزار سال پیشتر یمن کا بادشاہ تُبّع اول حمیری تھا، ایک مرتبہ وہ اپنی سلطنت کے دورہ کو نکلا، بارہ ہزار عالم اور حکیم اور ایک لاکھ بتیس ہزار سوار اور ایک لاکھ تیرہ ہزار پیادہ اپنے ہمراہ لئے اور اس شان سے نکلا کہ جہاں بھی پہنچتا اس کی شان و شوکتِ شاہی دیکھ کر مخلوق خدا چاروں طرف سے نظارہ کو جمع ہوجاتی، یہ بادشاہ جب دورہ کرتا ہوا مکہ معظمہ پہنچا تو اہل مکہ سے کوئی اسے دیکھنے نہ آیا، بادشاہ حیران ہوا اور اپنے وزیر اعظم سے اسکی وجہ پوچھیں تو اس نے بتایا کہ اس شہر میں ایک گھر ہے جسے بیت اللہ کہتے ہیں، اس کی اور اس کے خادموں کی جو یہاں کے باشندے ہیں تمام لوگ بے حد تعظیم کرتے ہیں اور جتنا آپ کا لشکر ہے اس سے کہیں زیادہ دور اور نزدیک کے لوگ اس گھر کی زیارت کو آتے ہیں اور یہاں کے باشندوں کی خدمت کرکے چلے جاتے ہیں،پھر آپ کا لشکر انکے خیال میں کیوں آئے، یہ سن کر بادشاہ کو غصہ آیا اور قسم کھاکر کہنے لگا کہ میں اس گھر کو کھدوادوں گا اور یہاں کے باشندوں کو قتل کروادوں گا ، یہ کہنا تھا...

حکایت نمبر 61 حضرت ابراہیم علیہ السلام اور چار پرندے

حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ایک روز سمندر کے کنارے ایک آدمی مرا ہوا دیکھا ۔آپ نے دیکھا کہ سمندر کی مچھلیاں اس کی لاش کھارہی ہیں ۔اور تھوڑی دیر کے بعد پھر پرندے آکر اس لاش کو کھانے لگے۔ پھر آپ نے دیکھا کہ جنگل کے کچھ درندے آئے اور وہ بھی اس لاش کو کھانے لگے۔آپ نے یہ منظر دیکھا تو آپ کو شوق ہوا کہ (آپ ملاحظہ فرمائیں ) کہ مردے کس طرح زندہ کئے جائے گے چنانچہ آپ نے خدا سے عرض کیا ۔ الٰہی! مجھے یقین ہے کہ تو مردوں کو زندہ فرمائے گا ۔ اور ان کے اجزاء دریائی جانوروں پرندوں اور درندوں کی پیٹوں سے جمع فرمائے گا لیکن میں یہ عجیب منظر دیکھنے کی آرزو رکھتا ہوں ۔خدا نے فرمایا اچھا اے خلیل ! تم چار پرندے لے کر انہیں اپنے ساتھ ملالو تاکہ اچھی طرح انکی شناخت ہو جائے پھر انہیں ذبح کرکے ان کے اجزاء باہم ملا جلا کر انکا ایک ایک حصہ ایک ایک پہاڑ پر رکھ دو اور پھر انکو بلاؤ اور دیکھو وہ کس طرح زندہ ہوکر تمہارے پاس دوڑتے ہوئے آتے ہیں۔                   چنانچہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے مور، کبوتر، مرغ اور کوا یہ چار پرندے لئے اور انہیں ذبح کیا ۔اور ان...

حکایت نمبر 60 حضرت عزیر علیہ السلام اور خدا کی قدرت کے کرشمے

بنی اسرائیل جب خدا کی نا فرمانی میں حد سے زیادہ بڑھ گئے تو خدا نے ان ہر ایک ظالم بادشاہ بخت نصر کو مسلط کردیا ، جس نے بنی اسرائیل کو قتل کیا، گرفتار کیا اور تباہ کیا ؛ اور بیت المقدس کو برباد و ویران کرڈالا ، حضرت عزیر علیہ السلام ایک دن شہر میں تشریف لائے تو آپ نے شہر کی ویرانی و بربادی کو  دیکھا تمام شہر میں پھرے کسی شخص کو وہاں نہ پایا شہر کی تمام عمارتوں کو منہدم دیکھا یہ منظر دیکھ کر آپ نے براہ تعجب فرمایا ۔  *اَنٌی یُحْیٖ ھٰذِہِ اللہُ بَعدَ مَوتِھا۔* یعنی اللہ اس شہر کو موت کے بعد اسے پھر کیسے ژندہ فرمائے گا ؟       آپ ایک دراز گوش پر سوار تھے اور آپ کے پاس ایک برتن کھجور اور ایک پیالہ انگور کے رس کا تھا . آپ نے اپنے دراز گوش کو ایک درخت سے باندھا اور اس درخت کے نیچے آپ سوگئے ۔جب سوگئے تو خدا نے اسی حالت میں آپ کی روح قبض کر لی اور گدھا بھی مرگیا اس واقعی کے ستر سال بعد اللہ تعالیٰ نے شاہان فارس میں سے ایک بادشاہ کو مسلط کردیا۔ اور وہ اپنی فوج لے کر بیت المقدس پہنچا۔ اور اس کو پہلے سے بھی  بہتر طریقے سے آباد کیا اور بنی اسرائیل میں سے جو...