حضرت ابراہیم علیہ السلام جب پیدا ہوئے تو نمرود کا دور تھا اور بت پرستی کا بڑا زور تھا ۔حضرت ابراہیم علیہ السلام ایک دن ان بت پرستوں سے فرمانے لگے کہ یہ تمہاری کیا حرکت ہے کہ ان مورتیوں کے آگے جھکے رہتے ہو۔ یہ تو پرستش کے لائق نہیں پرستش کے لائق تو صرف ایک اللہ ہے ۔
وہ لوگ بولے ہمارے باپ دادا بھی انہیں مورتیوں کو پوجا کرتے چلے آئے ہیں مگر آج تم ایک ایسے آدمی پیدا ہوگئے ہو جو انکی پوجا سے روکنے لگے ہو۔
آپ نے فرمایا ! تم اور تمہارے باپ دادا سب گمراہ ہیں۔ حق بات یہی ہے جو میں کہتا ہوں کہ تمہارا اور زمین و آسمان سب کا رب وہ ہے جس نے ان سب کو پیدا فرمایا اور سن لو! میں خدا کی قسم کھاکر کہتا ہوں کہ تمہارے ان بتوں کو میں سمجھ لوں گا
۔
چنانچہ ایک دن جب کہ بت پرست اپنے سالانہ میلہ پر جنگل میں گئے ہوئے تھے ۔حضرت ابراہیم علیہ السلام ان کے بت خانے میں تشریف لے گئے ۔اور اپنے تیشہ سے سارے بت توڑ ڈالے پھوڑ ڈالے اور جو بڑا بت تھا ۔اسے نہ توڑا اور اپنا تیشہ اس کے کندھے پر رکھ دیا اس خیال سے کہ بت پرست جب یہاں آئے تو اپنے بتوں کا حال دیکھ کر شاید اس بڑے بت سے پوچھیں۔ کہ ان چھوٹے بتوں کو یہ کون توڑ گیا؟ اور یہ تیشہ تیرے کندھے پر کیوں رکھا ہے ؟ اور انہیں اس کا عجز ظاہر ہو اور ہوش میں آئیں کہ ایسے عاجز خدا نہیں ہوسکتے ۔
چنانچہ جب وہ لوگ میلہ سے واپس آئے اور اپنے بت خانہ میں پہنچے تو اپنے معبودوں کا یہ حال دیکھ کر کہ کوئی ادھر ٹوٹا ہوا پڑا ہے کسی کا ہاتھ نہیں تو کسی کی ناک سلامت نہیں۔ کسی کی گردن نہیں تو کسی کی ٹانگیں ہی غائب ہیں۔ بڑے حیران ہوئے اور بولے ۔کہ کس ظالم نے ہمارے معبودوں کا یہ حشر کیا ہے؟
پھر یہ خبر نمرود اور اس کے امراء کو پہنچی ۔اور سرکاری طور پر اس کی تحقیق ہونے لگی تو لوگوں نے بتایا کہ ابراہیم ان بتوں کے خلاف بہت کچھ کہتے رہتے ہیں یہ انہیں کا کام معلوم ہوتا ہے ۔چنانچہ حضرت ابراہیم کو بلایا گیا اور آپ سے پوچھا گیا ۔کہ اے ابراہیم! کیا تونے ہمارے خداؤں کے ساتھ یہ کام کیا آپ نے فرمایا ۔وہ بڑا بت جس کے کندھے پر تیشہ ہے اس صورت حال میں تو قیاس کیا جاسکتا ہے کہ یہ اسی کا کام ہے تو پھر مجھ سے کیا پوچھتے ہو اسی سے پوچھ لونا ! کہ یہ کام کس نے کیا ۔ وہ بولے مگر وہ تو بول نہیں سکتے تو پھر تف ہے تم بے عقلوں پر اور ان بتوں پر جن کو تم اللہ کے سوا پوجتے ہو
*(قرآن پ 13 ع5)*
*سبـــق* : خدا کو چھوڑ کر بتوں کو پوجنا شرک ہے اور قرآن میں جہان *مِن دُونِ اللّہِ* "یعنی اللہ کے سوا " کا لفظ آیا ہے ۔وہاں یہی بت مراد ہیں نہ کی انبیاء و اولیاء اس لئے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام ان پر "تف" فرما رہے ہیں تو اگر ان سے مراد انبیاء و اولیاء ہوں تو حضرت ابراہیم علیہ السلام ایسا کیوں فرماتے
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں
اسلامی واقعات پڑھنے کا بہت شکریہ