سکندریہ کی ایک عورت ام فاطمہ مدینہ منورہ میں حاضر ہوئی تو اس
کا ایک پیر زخمی اور متورم ہوگیا حتٰی کہ وہ چلنے سے رہ گئی لوگ مکہ معظمہ جانے لگے مگر وہ وہیں رک گئی، ایک دن وہ کسی طرح روضۂ انور پر حاضر ہوئی اور روضۂ کا طواف کرنے لگی طواف کرتی جاتی اور یہ کہتی جاتی ، یا حبیبی یارسول اللہ لوگ چلے گئے اور میں رہ گئی، حضور! یا تو مجھے بھی واپس بھیجئے ، یاپھر اپنے پاس بلالیجئے یہ کہہ رہی تھی کہ تین عربی نوجوان مسجد میں داخل ہوئے اور کہنے لگے کون مکہ معظمہ جانا چاہتا ہے ام فاطمہ نے جلدی سے کہا میں جانا چاہتی ہوں ان میں سے ایک بولا تو اٹھو ، ام فاطمہ بولی میں اٹھ نہیں سکتی اس نے کہا اپنا پیر پھیلاؤ تو ام فاطمہ نے اپنا متورم پیر پھیلا دیا اس کا جب متورم پیر دیکھا تو تینوں بولے ہاں یہی وہ ہے اور پھر تینوں آگے بڑھے اور ام فاطمہ کو اٹھاکر سواری پر بیٹھا دیا اور مکہ معظمہ پہنچا دیا اور دریافت کرنے پر ان میں سے ایک نوجوان نے بتایا کہ مجھے حضور نے خواب میں حکم فرمایا تھا کہ اس عورت کو مکہ پہنچا دو ام فاطمہ کہتی ہے کہ میں بڑے آرام سے مکہ پہنچ گئی۔
(شواہدالحق صـــ164)
ســـبق: ہمارے حضور صلی اللہ علیہ وسلم آج بھی ہر فریادی کی فریاد سنتے ہیں اور ہر مشکل حل فرما دیتے ہیں بشرطیکہ فریادی دل سے اور سچی عقیدت سے یاحبیبی یارسول اللہ کہنے کا بھی عادی ہو۔
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں
اسلامی واقعات پڑھنے کا بہت شکریہ